چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
تعلیم علم و معرفت کی چابی اورعروج و ترقی کاراستہ ہے، جو بھی قوم تعلیم پر توجہ دیتی ہے وہ صدارت و پیشوائی کا مقام حاصل کرلیتی ہے؛ اسی لیے اسلام میں تعلیم کی بڑی اہمیت اوراس کا بڑا مرتبہ اورمقام ہے؛ چنانچہ قرآن کی سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت’’ اقرأ باسم ربک الذي خلق‘‘ ہے(پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)یہ آیت شریفہ آسمان سے نازل ہونے والا وہ پہلا نور ہے، جس سے دنیا میں روشنی پھیلی اورتاریکیاں چھٹ گئیں اور وہ پہلی رحمت ہے، جس کے ذریعہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر مہربانی کی، نیز وہ پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمائی۔( تفسیر ابن کثیر:۹؍۴۳۷)اس آیت نے علم و معرفت کے دروازے کھول دئیے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاشرے میں لکھائی پڑھائی کے پھیلانے پر توجہ دی؛چنانچہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ مسلمانوں میں سے دس دس افراد کو لکھنا پڑھنا سکھائیں( مسند احمد:۴؍۹۲) اور اس طرح اسلام نے مسلمانوں کے دلوں میں تعلیم کی محبت کا بیج بودیا؛چنانچہ مسلمانوں نے اس میں بھر پور دلچسپی لی، یہاں تک کہ کتاب ان کے نزدیک کھانے پینے سے بھی زیادہ محبوب بن گئی، ایک عالم فرماتے ہیں:’’ میں کتابوں کے مطالعہ سے سیر نہیں ہوتا اور جب میں کسی کتاب کو پہلی بار دیکھتا ہوں، تو گویا مجھے کوئی خزانہ مل جاتا ہے؛ چنانچہ اگر میں یہ کہوں کہ : میں نے بیس ہزار جلدوں کا مطالعہ کیا ہے تومبالغہ نہیں ہوگا۔‘‘
مسلمان کتابوں کی معیت اور ان کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہے، یہاں تک کہ دورانِ سفر بھی کتابوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے؛ چنانچہ ایک عالم نے اپنے ساتھی کو سفر سے پہلے نصیحت کی کہ’’ سفر کی وحشت دور کرنے کے لیے کتابیں پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ بولنے والی زبانیں اور دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔( تقیید العلم للخطیب البغدادی:۱۲۴) ایک عالم کتاب کی فضیلت و خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کتاب انتہائی عمدہ مال، انتہائی نفیس و خوبصورت، پر امن ہم نشین اورانتہائی راز دار غم خوار ہے۔( تقیید العلم: ۱۲۱) متنبی کہتا ہے: ’’وخیر جلیس في الزماں کتاب‘‘ زمانے میں انسان کا سب سے بہتر ہم نشین کتاب ہے‘‘ بعض حکماء کا قول ہے کہ کتابیں علماء کے باغ ہیں۔
علامہ مجد الدین فیروز آبادی کا بیان ہے کہ جب تک میں دو سطریں حفظ نہ کرلیتا، رات کو آرام نہ کرتا، یہ شوق سفر میں بھی معدوم نہیں ہوتا تھا؛ چنانچہ جب سفر میں جاتے تو سامان کے ساتھ چند اونٹوں پر صرف مطالعہ کی کتابیں لدی رہتی تھیں۔ ( ابن خلکان:۳۳۴)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کے پوتے عبد اللہ بن عزیز کا حال یہ تھا کہ کوئی کتاب لے کر قبرستان میں نکل جاتے اوراس کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے، لوگوں نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:’’ قبر سا واعظ، تنہائی سا بے ضرر اورکتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں‘‘( کتاب المحاسن والاضداد:۳)
معروف اسکالر’’ بیرونی‘‘ کی نگاہ کبھی کتاب سے نہیں ہٹی اوردوراتوں کے علاوہ کوئی ایسی رات نہیں گذری، جس میں اس نے کتابوں کا مطالعہ نہ کیا ہو۔
’’ کارل مارکس‘‘ نے جس زمانے میں اپنی مشہور کتاب’’ داس کیپٹل‘‘ لکھی، وہ پہلا شخص ہوتا تھا جو لندن کی لائبریری میں داخل ہوتا اور سب سے آخرمیں نکلتا، ایک بار لائبریری کا ملازم سر شام ہی لائبریری کا دروازہ باہر سے بند کرکے چلا گیا، اسے پتہ نہیں تھا کہ اندر کوئی ہے ، دوسری صبح جب اس نے لائبریری کا دروازہ کھولا، تو ’’ کارل مارکس‘‘ کو مطالعہ میں غرق پایا اوراستغراق کا یہ عالم تھا کہ اسے رات گزرنے کی بھی خبر نہیں تھی۔
’’ ارسطو‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رات کے وقت مطالعہ کے لیے ایک ہاتھ میں کتاب ، دوسرے میں پتھر اور سامنے پیتل کی تھالی رکھتا، جب مطالعہ کرتے ہوئے نیند کا جھونکا آتا اورپتھر ہاتھ کے نیچے رکھی ہوئی تھالی میں گر کر آواز پیداکرتا، تو وہ چونک پڑتا اورغنودگی ختم کرکے پھر پڑھنا شروع کردیتا۔ ( دوماہی فکر اسلامی، شمارہ:۱۰۹،ص:۵۰)
ثعلب شیبانی( المتوفی:۲۹۱ھ) فن نحو و لغت کے امام کو کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ راستہ میں بھی اس لطف سے محروم ہونا گوارا نہیں تھا اورآخر کار اسی شوق میں وہ شہید ہوگئے، جامع مسجد سے نماز پڑھ کر واپس ہورہے تھے، کتاب ہاتھ میں اورآنکھیں مطالعہ میں مصروف تھیں، ایک گھوڑے کی ٹھوکر لگی، جس کے صدمے سے جاں بحق ہوگئے ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سوایسا زیاں نہیں
تعلیم کے بڑ ے فائدے ہیں، تعلیم و مطالعہ ہی سے انسان ان افکار وخیالات سے آگاہ ہوتا ہے، جو اسے ترقی اورایجاد کی طرف لے جاتے ہیں، اہل علم کا مرتبہ بڑا ہوتا اور غیروں پر انھیں فضیلت حاصل ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم یافتہ صحابہ کو مقدم رکھتے تھے؛ چنانچہ آپ نے زید بن ثابت کو بہت سے صحابۂ کرام پر مقدم رکھا اور وہ کاتب وحی اورباہر سے آنے والے خطوط کے مترجم بن گئے۔
تعلیم و تعلم ، مطالعہ و کتب بینی، عقل کی غذا اور دل کی لذت ہے اور کوئی بھی کتاب فائدہ سے خالی نہیں ہوتی۔(رسائل ابن حزم:۴؍۷۷)
خلیفہ مامون نے کہا کہ: علماء کی کتابوں کے مطالعہ سے زیادہ لذت بخش کوئی تفریح نہیں ہوتی۔ ( سیر اعلام النبلائ:۱۰؍۲۸۲) کیوں کہ تعلیم و مطالعہ انسانی عقل کے نتائج، اس کے آداب و فنون،حصولیابیوں اورایجادات کی نقل کا اہم ترین ذریعہ ہے، اس کے سبب قاری کی عقل وشعور میں کشادگی پیدا ہوتی، اسے علم و حکمت حاصل ہوتی، اس کی مہارتوں میں بڑھوتری ہوتی اور اس کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے، نیز اس سے اخلاق سنورتے اورکردار و رویے درست ہوتے ہیں، حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ’’ انسان جب علم حاصل کرتا ہے تو کچھ ہی عرصے بعد علم کا اثر اس کے خشوع و خضوع، زہد و تقویٰ، اس کی زبان و بیان اوراس کی نگاہ میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔‘‘(سیر اعلام النبلائ:۴؍۵۸۳) کیوں کہ قاری جب سلف صالحین کی سیرت و کردار اورمجتہدین کی اولو العزمیوں کے بارے میں پڑھتا ہے، تو اس کی ہمت بلند ہوتی اور اس کے عزم و حوصلے میں جان پیدا ہوتی ہے، عبد اللہ ابن مبارکؒ سے کہا گیا کہ:’’ اگر آپ باہر نکل کر اپنے ساتھیوں کی ہم نشینی اختیار کرتے، تو کیا ہی اچھا ہوتا، انھوں نے فرمایا: جب میں گھرمیں ہوتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ہم نشینی میسر ہوتی ہے‘‘( احادیث و سیرت سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں) ( تقیید العلم:۱؍۱۲۶)
لہٰذا جو شخص چاہتا ہے کہ کسی عالم، مفکر یا موجد کی ہم نشینی اختیار کرے، اسے چاہئے کہ وہ ان کی کتابیں پڑھے، کیوں کہ کتابوں میں علم کا خلاصہ اور عقلی کاوشوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔
پرو فیسر محسن عثمانی ندوی لکھتے ہیں:’’ ایک انسان جب ایک کتاب خانہ میں داخل ہوتا ہے اورکتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے ، تو در اصل وہ ایسے شہر میں کھڑا ہوتا ہے، جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلائ، علماء ، اہل علم اور اہل ادب کی روحیں ہوتی ہیں، اس شہر میں اس کی ملاقات امام غزالی، امام رازی، شکسپیئر، برناڈشا، افلاطون، ارسطو، ابن رشد سے لے کر دور جدید کے تمام اہل علم اور اہل قلم سے ہوسکتی ہے، کتاب خانہ میں بیٹھ کر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ کا مطالعہ در اصل حضرت شاہ ولی اللہؒ سے براہ راست ملاقات اوراستفادہ کا بدل ہے، کتاب وہ واسطہ ہے، جس کے ذریعے انسان ’’ حاضرات‘‘ کے عمل کے بغیر اسلاف کی روحوں سے مل سکتا ہے۔‘‘( دو ماہی فکر اسلامی، شمارہ نمبر :۱۰۹، صفحہ:۵۱)
اکابرین واسلاف کے شوق علم اورذوق مطالعہ کے سیکڑوں، ہزاروں واقعات سے کتابیں بھری ہیں، کیا ہم ان واقعات سے عبرت حاصل کریں گے؟؟ فہل من مدکر؟
گوئے توفیق و سعادت درمیاں افگندہ اند
کس بمیداں در نمی آید سواراں راچہ شد
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب دیںحذف کریںناظرین ذوقِ مطالعہ کے سلسلے میں اپنی مختصر یا مفصل رودارد سنائیں۔ عنقریب میں اپنی روداد لکھ کر شائع کروں گا، ان شاء اللہ