ریاض العلوم گورینی کے مثالی پچاس سال

6 minute read
1

 
 ابنائے ریاض العلوم نے ایک اور کارنامہ انجام دیا۔ چند تیز گام دیوانے اٹھے اور انھوں نے مدرسہ کی تاسیس کو نصف صدی مکمل ہونے پر تاریخ کے جھروکے سے مدرسہ کی ماضی و حال کی تحریروں اور تصویروں کو نکال اور نکھار کر ایک نگار خانہ مرتب کردیا۔ انھوں نے مدرسہ کے دینی، علمی، ادبی، دعوتی، فکری، اصلاحی اور تصنیفی و تالیفی کارناموں سے متعلق تقریبا تمام پہلوؤں پر، مادر علمی ریاض العلوم کے نمایاں فرزندوں سے سیر حاصل مضامین و مقالات لکھوا کر ایک تاریخی اور یادگاری مجلہ شائع کیا۔ جس میں مدرسہ کی ماضی سے حال تک کی تمام سرگرمیوں، کارناموں، حصولیابیوں اور متحرک و فعال کرداروں کا جائزہ لیا جا سکتا اور انھیں کھلی آنکھوں چلتے پھرتے اور اپنے مقصد میں مگن اور مصروف عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ 
تصنیف و تالیف کا کام ایک وادیٔ پرخار ہے، جس کی نزاکتوں اور پیچیدہ و دشوار گزار مراحل کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، جنھوں نے کبھی اس کوچے میں قدم رکھا ہے، پھر جب معاملہ مختلف قلم کاروں سے مضامین لکھوانے اور بروقت ان کی حصول یابی کا ہو، تومعاملہ اور دشوار ہوجاتا ہے، مگر اس دستاویزی مجلہ کے باتوفیق مرتبین اس مرحلے سے کامیاب گزر گئے، پھر تاریخی حوالوں نیز دیگر معلومات یکجا کرنے کے لیے انھیں مختلف مقامات خاص کر مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کا بار بار سفر کرنا پڑا، مختلف شخصیات سے مل کر ان کے احوال اور مدرسہ میں ان کی کارکرگی کی تفصیلات یکجا کرنی پڑیں، آگے کتابت و تصحیح کے پر پیچ مراحل، قلم کاروں کے مضامین کی جانچ پرکھ، تکرار کا حذف، مفید باتوں اور پہلوؤں کا اضافہ، نظر ثانی اور پھر طباعت کے مرحلے تک پہنچنے کے بعد مالی فراہمی کا سنگین مسئلہ … اور … اور … 
قلل الجبال و دونہن حتوف 
ہزاروں مرحلے ہیں صبح کے ہنگام سے پہلے
الحمد للہ! مرتبین ڈیڑھ دو سال کی انتھک محنت، جگر کاوی اور دماغ سوزی کرکے ان تمام مراحل سے بخیر و خوبی گزر گئے، دستاویزی مجلہ چھپ کر آگیا اور یوں پہاڑ کا جگر چیر کر دودھ کی نہر جاری کرنے کا یہ سفر طے ہوگیا، جس کے لیے ابنائے ریاض العلوم جنھوں نے اپنا قلمی تعاون پیش کیا، خاص کر اس تحریک کے روح رواں فاضل مرتبین (مفتی عبید اللہ شمیم قاسمیؔ ۔ مفتی اظہار الحق قاسمیؔ بستوی اور مولانا طہ جون پوری) صدہا مبارکبادیوں اور ستائش کے مستحق ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی اس محنت و جاں فشانی کو قبول فرمائے۔ 
یہ یادگاری مجلہ ریاض العلوم کا ’’زندگی نامہ‘‘ ہے، جس میں ابتداء سے اب تک کے حالات و واقعات، مشکلات، کٹھنائیوں اور ان سے گزر کر کامیابیوں کے حصول، ترقی و عروج کی داستان، عزت و اعتبار کے حصول کی کہانی، بانی ٔ مدرسہ کا سوز و گداز، مدرسے کے تعلق سے ان کی تڑپ اور لگن، در کفے جامِ شریعت در کفے سَندانِ عشق کا مزاج و مذاق، مدرسہ کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے ماہرین فن اساتذہ کی جستجو اور تقرری، اساتذہ کی محنت اور لگن، ان کی تعلیم و تربیت کا نرالا انداز، رجال سازی کا جذبہ، مثالی طلبہ، ان کے اخلاق و کردار کی جھلک، اسباق اور نمازوں کی پابندی کا قابل رشک منظر، مہتمم صاحب کا مثالی انتظام، مدرسے کی صفائی ستھرائی، طلبہ کے رہنے سہنے، کھانے پینے اور ان کی چلت پھرت کی جھلک، مطبخ کا مثالی اور معیاری نظام، مدرسے کے شعبہ جات (پرائمری، تصحیح و ناظرہ، حفظ، تجوید و قرات، فارسی و عربی تا دورۂ حدیث شریف، افتائ،شعبۂ تقریر و تحریر: انجمن تہذیب اللسان ) ماہنامہ ریاض الجنہ کے ماہ و سال کی جھلکیاں اور اس کے ذریعے عوام میں پیدا ہونے والی دینی بیداری اور بعض فتنوں کا قلع قمع، گاہے گاہے بعض غلط فہمیوں کے سد ِ باب اور غلط عقائد و نظریات کی درستگی کے لیے بشکل پمفلیٹ بعض اہم مقالات و مضامین کی اشاعت کا تذکرہ، احاطۂ مدرسہ میں تبلیغی سرگرمیاں اور ان کا نظام و انتظام، حسب ضرورت دور و نزدیک کے علاقوں میں شاخہائے مدرسہ کا قیام … غرض اس دستاویز میں مدرسہ کے پچاس سالہ دور کی پوری تفصیل موجود ہے۔ 
فاضل مرتبین نے اس تاریخی دستاویز کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: 
۱… یہ شمارہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کے ایک تاریخی آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
۲… اس میں اطناب ممل اور ایجاز مخل سے مکمل گریز کیا گیا ہے۔ 
۳… زبان و بیان کو سلیس، اچھی اور مربو ط رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ 
۴… یہ مدرسے کے تئیں اس کے فضلاء و فیض یافتگان کی طرف سے ایک خراج عقیدت ہے۔ 
۵… یہ باقاعدہ تاریخ نہ ہوکر بھی ایک بھر پور تاریخ ہے، جس میں ریاض العلوم کی ابتدا سے لے کر اب تک کے حالات، ترقیات، حصولیابیوں وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ ساتھ ساتھ اب تک ریاض العلوم کو اپنا فیض پہنچانے والے تمام اساتذہ و ملازمین کی تاریخ خدمت کا بھی تذکرہ ہے، نیز مدرسے سے سند فراغت حاصل کرنے والے علماء و مفتیان کے اسماء اور ان کے اوطان کا بھی تذکرہ ہے۔ 
۶… اس میں ریاض العلوم کی تاریخ کے تمام گوشوں کو پوری طرح اُجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ (مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے مثالی پچاس سال: صفحہ؍ ۲۲،۲۳) 
اس دستاویز میں چوں کہ مختلف قلم کاروں کی تحریریں ہیں، اس لیے یہ گلدستہ بھانت بھانت کی بھینی بھینی خوشبوؤں سے معطر ہے، جسے قارئین بجا طور پر محسوس کریں گے۔ 
اس دستاویز کی تیاری کے بعد بانی ٔ مدرسہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ کے حقیقی جانشین، خلف الرشید اور موجودہ مہتمم حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب مظاہریؔ اطال اللہ بقاء ہ ۔جو روز اول سے اس چمنستان حلیمی کو سجانے سنوارنے میں بانی ٔ مدرسہ کے دوش بدوش رہے اور اسے بام عروج تک پہنچانے اور اس کی ترقی اور قدر و منزلت کے خاکے میں رنگ بھرنے میں مثالی کردار ادا کیااور شروع سے اب تک اس کی ایک ایک سانس کے گواہ اور اس کی تمام سرگرمیوں کے بچشم خویش مشاہدہ کرنے والے ہیں۔ کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا، حضرت والا نے پوری کتاب ملاحظہ کی، خاص کر تاریخی واقعات اور حوالوں کو بنظر غائر دیکھ کر اصلاح و ترمیم فرمائی، جس نے اِس پورے مجموعے کو درجۂ استناد عطا کردیا ہے۔ 
ان تمام باطنی خوبیوں کے باوصف یہ دستاویز ظاہری طور پر بھی بہت دلکش ہے، ٹائٹل دیدہ زیب اور طباعت پرکشش ہے، رنگ و روپ نکھرا ہوا، نقوش دامنِ دل کو کھینچتے اور کلمات و حروف دعوت نظارہ دیتے ہیں، کتاب تقریبا ۸۰۰؍ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور فی الحال اس کی رعایتی قیمت چارسو روپئے رکھی گئی ہے۔ کتاب مولانا یاسین صاحب موبائل نمبر (9118480705)اور حافظ وصی اللہ موبائل نمبر (8090250282 ) اساتذہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جون پور سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ 
٭٭٭
تحریر کردہ: ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ؁ 

Tags

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !