’’ امام کسائی‘‘- جو بعد کو فن ادب کے مشہور امام ہوئے- علماء کی ایک مجلس میں اکثر و بیشتر حاضرہواکرتے تھے، ایک دن ’’ کسائی‘‘ کی زبان سے ایک ایسا لفظ نکل گیا، جو لغوی اورفنی اعتبار سے غلط تھا؛ چنانچہ مجلس میں موجود علماء نے اس پر گرفت کی، علماء کی اس گرفت اوراعتراض سے ’’ کسائی‘‘ کے دل پر چوٹ لگی، فوراً مجلس سے باہر نکل آئے اور یہ تہیہ کرلیا کہ اب ایسافن سیکھوں گا، جس سے پھر کسی محفل میں ایسی خفت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، یہ عزم کرکے ’’ کسائی‘‘ اس وقت کے فن ادب کے استادیگانہ’’ خلیل بصری‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے ادب عربی حاصل کرنے لگے، مگر ’’کسائی‘‘ کو جو مقام و مرتبہ مطلوب تھا، اس کے لیے ایک اورچَرکے کی ضرورت تھی ؛ چنانچہ ایک دن ایک بدوی نے ان کو طعنہ دیا کہ تم ’’ ادب کی کان‘‘ بنو تمیم اور بنو اسد کو چھوڑ کر ادب عربی حاصل کرنے بصرہ آئے ہو؟ یہ چبھتا ہوا فقرہ ’’کسائی‘‘ کے دل میں ترازو ہوگیا اورایک دن موقع پاکر اپنے محترم استاد سے پوچھا کہ حضرت! آپ نے فن ادب کہاں سیکھا؟ استاد نے جواب دیا کہ حجاز، تہامہ اورنجد کے جنگلوں میں ! اب کیا تھا’’ کسائی‘‘ کے دل میں ایک تازہ سودا سوار ہوا اورانھوں نے شہر چھوڑ کر صحراء کی راہ لی اورقریہ در قریہ، قبیلہ درقبیلہ اتنا پھرے کہ اس فن کے امام بن گئے اور آج ادب عربی کا ادنی طالب علم بھی ان کے نام سے نا آشنا نہیں ہے۔
فن نحو و ادب کے امام ’’ سیبویہ‘‘ ابتداء ً فقہ اور حدیث پڑھاکرتے تھے، اس وقت ان کو ’’ نحو‘‘ سے بالکل مناسبت نہ تھی، اس زمانے میں وہ حماد بن مسلمہ کے مُستمَلی بھی تھے، ایک دن ایک حدیث کی روایت میں حماد نے ’’ لیس أبا الدردائ‘‘ املاکرایا، ’’ سیبویہ‘‘ نے ان کو ادا کرتے وقت ’’ لیس أبوالدردائ‘‘ سامعین کو سنایا، شیخ نے کہا کہ غلط لفظ مت بتاؤ، ’’لیس أبا الدردائ‘‘ کہو، اس گرفت سے ’’ سیبویہ‘‘ انتہائی متاثر ہوئے،اورانھوں نے سوچا؛ کیوں نہ وہ علم حاصل کیا جائے جو ایسی غلطیوں سے محفو ظ رکھے؛چنانچہ انھوں نے نحو سیکھنی شروع کی، اوراس محنت و لگن سے سیکھی کہ ’’ فن نحو کے امام الائمہ بن گئے۔( نزہۃ الالباء في طبقات الأدبائ:۷۲، بحوالہ : علماء سلف :۱۳،۱۴)
کیسی مبارک تھیں ان کی غلطیاں جو انھیں معمولی مقام سے اٹھاکر اوجِ کمال تک پہنچادیتی تھیں۔
ماضی قریب کے ایک عالم ربانی کے بارے میں ان کے خلف رشید حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:’’ حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کو جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تو میں اکثر دار العلوم کے کتب خانے میں چلاجاتا تھا، وہ وقت ناظم کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا، اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میری وجہ سے چھٹی کے بعد بھی کتب خانے میں بیٹھے رہیں؛ چنانچہ میں نے انہیں باصرار اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں، تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا جائیں؛ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے اور میں ساری دوپہر علم کے اس رنگا رنگ باغ کی سیر کرتا رہتا تھا۔‘‘(میرے والد میرے شیخ:ص۱۲)
امامِ ادب ابو عمرو ابن العلاء ایک زمانے میں حجاج بن یوسف سفاک کے خوف سے صحراء عرب میں بھاگے بھاگے پھرتے تھے، اِدھر تو جان کے لالے پڑے تھے، اُدھر اس علامۂ ادب کو یہ تلاش تھی کہ آیا لفظ ’’فرجۃ‘‘( بمعنی کشادگی، فراخی) بالضم ہے یا بالفتح، ایک دن بادیہ پیمائی کرتے ہوئے ایک بدّو کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ۔
ربما تجزع النفوسُ من الأمر ٭ لہ فَرْجَۃ کحل العِقال
(بسااوقات لوگ جس بات سے گھبراتے ہیں، وہ رسی کی طرح فراخ و کشادہ ہوکر کھل جاتی ہے۔) ’’فرجہ‘‘ کو اس نے زبر سے ادا کیا، یہ شعرپڑھ کر وہ بدوی ابو العلاء سے مخاطب ہوا اورکہا کہ سنتے ہو، ظالم حجاج مرگیا! ابو العلاء کہتے ہیں کہ مجھ کو اس وقت تمیز نہ ہوسکی کہ میں کس بات سے زیادہ خوش ہوا: لفظ ’’فرجہ‘‘ کی صحت ِ ادائیگی کی دریافت سے یا اپنے جانی دشمن کی موت کی خبر پانے سے؟( نزہۃ الالبائ:۳۲، بحوالہ : علماء سلف :۲۴، اسلامی کتب خانہ ،کراچی)
اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی لکھتے ہیں: اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شیفتۂ علم کے نزدیک ایک ایک علمی مسئلہ جان کے برابر عزیز تھا، اسی کی بدولت ابوالعلاء کو یہ بلند مرتبہ حاصل ہوا کہ امام فن قرار پائے، جو لوگ اپنی جسمی آسائشوں کو بھی علم پرقربان نہ کرسکیں، وہ کیا شان حاصل کرسکتے ہیں؟ اب مدرس بہت اورمدارس بہت، لیکن شوق اورہمت نایاب، اس لیے ہماری علمی محفلوں میں ہر طرف سناٹا ہے۔
٭…٭…٭