بچو! آئیے آج آپ کو ’’طوطے‘‘ کی ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
بچو! آپ جانتے ہیں کہ ’’طوطا‘‘ ایک خوبصورت پرندہ ہے، اس کے بال و پَر ہرے رنگ کے، جب کہ چونچ لال رنگ کی ہوتی ہے اور بعض کی گردن میں خوش نما طوق بنی ہوتی ہے۔ وہ انسانوں کے ساتھ بہت جلد مانوس ہوجاتا اور ان کی جیسی بولی بولنے لگتا ہے، اکثر وہ پیٹو پیٹو کہہ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ آپ نے ایسا ’’پالتو طوطا‘‘ ضرور دیکھا ہوگا، جو انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے ان کی جیسی بولیاں بولنے لگتا ہے۔
پرانے وقت کی بات ہے، ایک باغ میں ایک طوطا اپنی مادہ (طوطی) کے ساتھ رہا کرتا تھا، وہ بہت چالاک اور ہوشیار تھا، باغ میں رہنے والے دوسرے پرندوں سے اس کی خوب جمتی تھی،تمام پرندے ہنسی خوشی رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی و شادمانی میں شریک ہوتے تھے، کچھ دنوں کے بعد ’’طوطے‘‘ کے یہاں دو ننھے ننھے بچے پیدا ہوئے، چوں چوں کرکے انھوں نے گھونسلے اور آس پاس کے ماحول کو آباد کردیا تھا۔ اب طوطا سارا دن انھیں کی دیکھ بھال میں گزارنے لگا، اکثر اس کے دوست پرندے اس کے لیے پانی اور چارے کا انتطام کر دیتے تھے۔
لیکن دوسروں کے سہارے وہ کب تک رہتا، آخر کچھ دنوں کے بعد چارے کی تلاش میں وہ خود باہر نکلا، اس نے ایک لمبی اُڑان بھری، بچوں کے کھانے کے لیے اسے چارے کا انتظام کرنا تھا، صبح کا سُہانا موسم، پرندوں کی چہکار، بیدار ہوتی ہوئی بستی میں زندگی کی چہل پہل۔ اور پھر سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی ہری بھری گھاس اور زمین پر بکھرے ہوئے ننھے ننھے پودوں پر گری ہوئی شبنم مُسکرا اُٹھی، دھان، مکئی اور ساگ سبزیوں کے لہلہاتے ہوئے کھیت اور رنگ برنگ کے پھول اور پتیاں، اس کا جی چاہا کہ اس خوبصورت منظر اور سُہانے موسم سے خوب لطف اندوز ہو۔ مگر بچوں کے کھانا جمع کرنے کی فکر نے اسے زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیا، اس نے مختلف جگہوں سے نرم چارے اکھٹا کیے اور اپنے گھونسلے کی طرف چل پڑا۔
وہ چارا لے کر جوں ہی گھونسلے میں پہنچا، بچے اسے دیکھ کر چوں چوں کرنے لگے، وقت گزرتا رہا، بچے دھیرے دھیرے بڑے ہوگئے، اب وہ اُڑنے کے قابل ہوگئے تھے، ماں نے انھیں اُڑنا سکھایا، بچے اُڑتے اور گرتے، گر کر پھر اُڑتے، اس طرح دھیرے دھیرے چند دنوں میں انھوں نے اُڑنا سیکھ لیا۔ ماں نے انھیں اُڑنا، چارے چُگنا، شکاری کی پہچان اور اس سے بچنے کی تدبیر سب کچھ سکھادیا تھا۔ اور ایک دن ماں نے ان سے کہا: میرے پیارے بچو! اب تم نے اُڑنا سیکھ لیا ہے، تمہارے اندر اپناکھانا جمع کرنے، دشمن کی پہچاننے اور اس سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے۔ لہذا میرے پیارے بچو! الوداع! اب رخصت ہوجاؤ، فضا کی وسعتوں میں گھومو پھرو، زمین کے بستر پر جہاں چاہو، کھیلو، کھاؤ، یہ کائنات تمہاری ہے۔
ماں نے اپنی تین نسلوں کو یوں ہی پال پوس کر آباد کیا تھا، اب وہ بوڑھی ہوچکی تھی، اب اس میں چلنے پھرنے اور اُڑان بھرنے کی ویسی سَکَت نہیں رہی تھی، جیسی پہلے تھی۔ ادھر اس کے جوڑے طوطے کا بھی انتقال ہوگیا، لہذا اب اس نے گھونسلے میں رہنا شروع کردیا، کچھ دنوں کے بعد اس کے بچے اپنے فیملی کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے آئے، وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لائے تھے، ماں انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی، بچے چند دن ہنسی خوشی رہے، جب رخصت ہونے لگے، تو انھوں نے ماں سے کہا: اب آپ کی آخری عمر ہے، آپ ضعیف ہوچکی ہیں، چارا اکٹھا کرنا آپ کے لیے دشوار ہے، لہذا آپ ہمارے ساتھ چل کر رہیں۔ ماں نے ان کی بات قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی اور ان کے ساتھ جاکر ہنسی خوشی رہنے لگی۔
ایک دن بوڑھی طوطی نے اپنی زنبیل سے ایک پرانی کتاب نکالی، جس کے اوراق انتہائی بوسیدہ اور حروف و نقوش کچھ مٹے مٹے سے تھے، اس نے بڑی احتیاط سے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، اس نے کتاب نکال کر اپنے بچوں سے کہا: میرے پیارے بچو! تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ بچوں نے نفی میں سر ہلایا، تو بوڑھی طوطی کہنے لگی: میں بتاتی ہوں! یہ پرندوں کی قصے کہانیوں پر مشتمل ایک نادر کتاب ہے، جو باپ دادا سے مجھے ورثہ میں ملی ہے، اس میں پرندوں کے عجیب و غریب قصے ہیں۔ بچو! کیا تم یہ کہانیاں سننا پسند کروگے؟ بچوں نے لہک لہک کر کہا: کیوں نہیں؟ ہمیں کہانیاں سننا بہت پسند ہے۔ اور جب وہ کہانیاں ہمارے اپنے گروہ یعنی چڑیوں سے متعلق ہوں، پھر تو پوچھئے مت کہ کتنا پسند آئیں گی۔ آپ ہمیں وہ کہانیاں ضرور سنائیں!
طوطی نے ایک لمبی سانس کھینچی اور کہنے لگی کہ یہاں آنے سے پہلے جب میں اکیلی تھی، تو فرصت کے وقت میں انھیں کہانیوں کو پڑھ پڑھ کر وقت کاٹتی تھی، میں یہ دلچسپ اور معلوماتی کہانیاں تمہیں ضرور سناؤں گی۔ مگر اس کے لیے رات کا وقت زیادہ مناسب ہوگا، رات میں کھانے پینے سے فراغت کے بعد سونے سے پہلے میں یہ کہانیاں سناؤں گا، تم لوگ تیار رہنا۔
بچوں نے کہانی سننے کے شوق میں دن گزارا، جوں ہی سورج ڈھلا اور رات نے تاریکی کی چادر تاننی شروع کی، بچے کھا پی کر فارغ ہوئے اور دادی طوطی کو گھیر کر بیٹھ گئے، طوطی نے باری باری ہر ایک کی طرف دیکھا اور پھر کہانی بیان کرنی شروع کی:
’’بہت پہلے زمانے کی بات ہے، ایک گھنے جنگل میں ایک طوطی رہتی تھی، اس نے ایک بہت ہی لمبے اور گھنے درخت کی اونچی شاخ پر اپنا گھونسلا بنا رکھا تھا، جہاں پر عام موذی جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی رسائی نہیں تھی، وہ وہاں بہت آرام اور ٹھاٹ سے رہتی تھی، دن میں کھانے پینے کے انتظام کے لیے جنگل کا چکر لگاتی، سیر کرتی۔ اور شام کو چارہ لے کر اپنے گھونسلے میں آجاتی اور کھا پی کر وہیں رات گزارتی۔
ایک مرتبہ کی بات ہے۔ طوطی نے انڈے دیئے، اب وہ ان انڈوں کی دیکھ ریکھ کی وجہ سے کم کم ہی اپنے گھونسلے سے باہر نکلتی تھی، اگر کسی ضرورت سے نکلتی تو بہت جلد واپس آنے کی کوشش کرتی۔ ایک مرتبہ کسی ضرورت سے وہ باہر گئی ہوئی تھی، جب تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آئی، تو اس نے دیکھا کہ اس کے انڈے ٹوٹے ہوئے ہیں، چھلکے پڑے ہوئے ہیں، کوئی ان انڈوں کو توڑ کر کھا گیا ہے، اسے بہت غم ہوا، اور تعجب بھی کہ آخر اتنی بلندی پر آکر اس کے انڈوں کو کون کھا گیا؟ اس نے بہت غور و فکر کے بعد اس کا پتہ لگانے کی ترکیب سوچی، رات اس نے اپنے گھونسلے میں بسر کی، لیکن چوکنّا اور بیدار رہ کر کہ کہیں کوئی دشمن مجھے بھی نقصان نہ پہنچائے۔
صبح جب سورج نکلا اور جنگل میں اُجالا پھیلنا شروع ہوا، تو اس نے اپنے گھونسلے سے نکلنے کے بجائے وہیں سے گھات لگا کر چاروں طرف دیکھنا شروع کردیا، کچھ دیر بعد اچانک اس نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا سانپ اس کے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا ہے، اس نے یہ دیکھ کر اُڑان بھری اور قریب کے درخت پر رہنے والی چیل کے پاس گئی، اس کی اور چیل کی خوب جمتی تھی، اس نے چیل کو ساری صورت حال بتائی۔ چیل نے جب یہ سنا، تو غصہ سے آگ بگولا ہوگئی اور طوطی سے بولی: بہن! تم عم نہ کرو، میں اس کم بخت سانپ کو مزہ چکھاتی ہوں، چنانچہ چیل طوطی کے ساتھ اس کے گھونسلے کے پاس آئی، دیکھا کہ سانپ طوطی کے گھونسلے میں گھس کر آرام سے بیٹھا ہوا ہے، چیل گھونسلے کے پاس گئی اور سانپ کی گردن پکڑ اس کو گھونسلے سے نکالا اور فضا میں اڑ گئی، اس نے اپنے پنجوں سے سانپ کی گردن پکڑ رکھی تھی اور اپنی چونچ سے مسلسل اسے مارے جا رہا تھی، پھر اس نے ہوا میں اڑتے ہوئے اوپر ہی سے اسے چھوڑ دیا، اتنی بلندی سے زمین پر گرتے ہوئے سانپ کی رہی سہی جان بھی نکل گئی، اس طرح چیل نے اس سانپ کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
بچوں نے یہ سنا، تو خوشی سے تالیاں بجائیں، اور طوطی کی چالاکی اور چیل کی مدد سے بہت خوش ہوئے۔
پھر بوڑھی طوطی نے ان سے کہا: بچو! آج اتنا ہی، دوسری کہانی کل سنائی جائے گی۔ تمام بچے اچھل اچھل کر اپنی اپنی جگہ چلے گئے اور آنکھوں میں اگلی کہانی کا خواب بسا کر سوگئے۔
Mohammad Izhar Qasmi
Village & Post. Pauli, Dist: Santkabir Nagar U, P,
Pin:272 162
Mobile: 9389597963
mizhar565@gmail.com