خدا بسیار خوری سے بچائے

4 minute read
0


 عن مقدام بن معدیکرب قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول :ما ملأ آدمي وِعاءً شراً من بطن، بحسب ابن آدم أُکُلات یقمن صلبہ، فإن کان لا محالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لِنَفَسِہٖ۔(الجامع للترمذي، رقم الحدیث:۲۳۸۰)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی نے کوئی ایسا برتن نہیں بھرا جوپیٹ بھر نے سے زیادہ برا ہو، ابن آدم کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھی رکھ سکیں، پھراگر اسے(چند لقموں سے زیادہ) کھانا ہی ہے، تو پیٹ کا تہائی حصہ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے ہونا چاہئے۔

ابن قیمؒ فرماتے ہیں:کھانے کے تین درجے ہیں:  ۱؎  ضرورت کا درجہ  ۲؎  کفایت کا درجہ  ۳؎  فضیلت کا درجہ؛ چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کے لیے چند ایسے لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھی رکھ سکیں، اوراس کی طاقت و قوت میں کمی نہ ہو، پھر اگروہ مزید کھانا چاہتا ہے ، تو تہائی پیٹ کھائے اوریہ جسم اور دل کے لیے زیادہ نفع بخش ہے؛کیونکہ پیٹ جب کھانے سے بھر جاتا ہے تو پانی کی جگہ نہیں رہتی اور جب اس پر پانی بھی پی لیتا ہے، تو اس کے لیے سانس لینا مشکل ہوتا ہے اور اسے مشقت وپریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔

 امام غزالیؒ بسیار خوری کے نقصانات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بسیار خوری کی وجہ سے گناہ خاص کر شہوت بھڑکتی ہے، پھر اگر خوفِ خدا اسے زنا سے روک دے، تو اس کی آنکھیں قابو میں نہیں رہتی ہیں اوراگر کسی طرح آنکھوں کی حفاظت کرلی، تو بیہودہ خیالات سے پیچھا چھڑا نا مشکل ہوتا ہے۔

 امام شافعیؒ فرماتے ہیں: پندرہ سال کے عرصے میں صرف ایک مرتبہ میں نے سیر ہو کر کھایا ، لیکن پھر اس سے باز آگیا؛ اس لیے کہ سیر ہوکرکھانے سے بدن بوجھل ہوجاتا ہے، دل میں قساوت اورسختی پیدا ہوجاتی ہے، ذکاوت و فطانت جاتی رہتی ہے، نیند کثرت سے آتی ہے اور عبادت میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔

سہل بن عبد اللہ تستریؒ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا، تو قساوت قلبی اورجہالت سیری میں رکھ دی اور علم و حکمت بھوک میں۔

بشر بن حارثؒ کہتے ہیں :بھوک کی وجہ سے دل کی صفائی ہوتی ہے، نفسانی خواہش دم توڑ دیتی ہے اور علم دقیق حاصل ہوتا ہے۔

حضرت جنید بغدادیؒ سے صوفیاء کے احوال کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: صوفیاء کا کھانا مریضوں کے کھانے کی طرح معمولی ہوتا ہے اور ان کی نیند ڈوبتے لوگوں کی نیند کی طرح ہوتی ہے۔

 حضرت فتح موصلیؒ فرماتے ہیں: تیس شیوخ نے رخصت ہوتے ہوئے مجھے یہ نصیحت کی کہ نو عمروں کی صحبت اختیار نہ کرنا اور کم کھانا۔

حدیث مذکور کے سبب ایک امریکی ڈاکٹر کا قبول اسلام

ایک امریکی ڈاکٹر نے اسلام قبول کیا، لوگوں نے اس سے اسلام لانے کے بارے میں سوال کیا، تو اس نے جواب دیا کہ میں ایک حدیث اور ایک آیت کی وجہ سے مسلمان ہوا، لوگوں نے پوچھا: وہ حدیث کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول:’’ بحسب ابن آدم أُکُلات یقمن صلبہ‘‘ الخ۔

اس کے بعد کہنے لگا، یہ طب کی جان ہے، اگر لوگ اس پر عمل کریں تو بیمار نہ ہوں۔

اپنے دامن کے بے آبرو موتی غیروں کے گلے کی زینت

جرمنی کے ایک ہاسپٹل میں ایک مسلمان صحافی اور ایک جرمن ڈاکٹرکے مابین ایک دلچسپ گفتگو ہوئی، جو آج کے روشن خیال اورجدت پسند مسلمانوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے:

جرمن ڈاکٹر نے مسلمان صحافی سے پوچھا کہ موجودہ وقت میں تہذیب و تمدن اورترقی میں مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب کیا ہے؟ مسلمان صحافی نے جواب دیا: مسلمانوں کی پسماندگی اورپچھڑے پن کا سبب صرف اسلام ہے( نعوذ باللہ) اس ڈاکٹر نے صحافی کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک دیوار کے پاس لے گیا، جس پر ایک تختی لٹک رہی تھی، ڈاکٹر نے صحافی سے کہا: اس تختی پرلکھی ہوئی عبارت پڑھو، صحافی نے دیکھا کہ اس میں ایک حدیث پاک لکھی ہوئی ہے’’ ماملأ ابن آدم وعاء ً شراً من بطنہ‘‘اور حدیث کے آخر میں لکھا ہوا تھا:’’یہ محمد بن عبد اللہ کا قول ہے‘‘۔

پھر اس جرمن ڈاکٹر نے مسلمان صحافی سے کہا: کیا تم انھیں جانتے ہو؟ صحافی نے کہا: ہاں! یہ ہمارے نبی ہیں،جرمن ڈاکٹر نے کہا: تمہارے نبی کا یہ کتنا عظیم قول ہے اورتم کہتے ہو کہ تمہاری پسماندگی اور ذلت کا سبب اسلام ہے؟ اس جرمن ڈاکٹرنے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی : افسوس ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جسم تمہارے پاس ہے اوران کی تعلیمات ہمارے پاس ہیں۔

فضول جان کے جس کو بجھا دیا تو نے ٭ وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !