عربی مضمون: مصطفی لطفی المنفلوطی
ترجمہ: ابن سراج قاسمیؔ
سماجی بیماری سے پردہ اٹھاتی ہوئی ایک چشم کشا تحریر
میں نے ایک اخبار میں پڑھا کہ ایک مسلمان تاجر نے خود کشی کرلی، بیماری کی شدت یا تنگ دستی اور بد حالی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ اسے اپنے ایک دوست کے انتقال پر اتنا صدمہ ہوا کہ اس نے خود کو بھی موت کے حوالے کردیا۔
ایک مسلم و مومن بندے کو خود کشی کرنے والے کے انجام بد کا اعتقاد و یقین ہوتا ہے، اس کے باوجود زندگی کے آخری لمحات میں اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اس کے لیے کیوں کر آسان ہوجاتا ہے؟ جس کی وجہ سے دنیا و آخرت دونوں جگہ کا خسارہ اس کا مقدر ہوتا ہے۔ اور یہ اخیر وقت کا اقدام دنیا میں پیش آنے والی بڑی سے بڑی مشقت اور تکلیف سے بڑھ کر ہے؛ کیوں کہ بد بختی اس کا ہمیشہ کا مقدر بن جاتی ہے۔
خود کشی ایک غلط رجحان اور قابل مذمت عادت ہے جو مغربی تہذیب کی راہ سے ہمارے اندر در آئی ہے۔ پہلے ہمیں اہل مشرق کے مغربیوں کی تقلید پر تعجب ہوتا تھا، جس تقلید کے سبب ان کی شرافت داغ دار ہوتی اور کرامت پر بٹہ لگتا تھا۔ اور جب ہمیں بطور مبالغہ اس اندھی تقلید کی مثال دینی ہوتی تو ہم کہتے کہ اگر اہل مشرق کو پتہ چل جائے کہ خود کشی مغربیوں کی عادت ہے تو وہ اسے بھی اپنا کر اپنے سینے سے لگا لیں گے۔ (اور آج اہل مشرق اس مہلک تہذیب کو اپنا کر معمولی معمولی باتوں پر موت کو گلے لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں)
خود کشی انتہائی بزدلی ، عقلی دیوالیہ پن اور اضطراب و انتشار کی علامت ہے، اور میرا خیال ہے کہ کوئی بھی ایسا انسان جس کے سر میں ذرہ برابر بھی عقل و شعور ہے، وہ ایسا بزدلانہ اور احمقانہ کام نہیں کرے گا۔
اللہ رب العزت نے ہر فرد بشر کے اندر اپنی ذات سے محبت کا جذبہ پیدا فرمایا ہے، تاکہ یہ حبِّ ذات اس کی زندگی کا سر چشمہ اور اس کے وجود و بقاء کے لیے ستون اور سہارے کا کام دے۔ …… لیکن اپنی خود کشی پر آمادہ شخص تو اپنی ذات ہی سے اس قدر سخت دشمنی اور بغض پر آمادہ ہوجاتا ہے، کہ کوئی آدمی کسی دشمن سے اتنی سخت عداوت و دشمنی کیا رکھے گا!!!
خود کشی کرنے والے کا دل کتنا ہی زیادہ رنج و غم سے بھر کیوں نہ جائے، اسے کتنی ہی زیادہ مایوسی لاحق ہو، وہ حوادثات زمانہ کا شکار ہو اور اس کی زندگی مسلسل بحران سے دوچار کیوں نہ ہو، لیکن پھر بھی خود کشی کا اقدام کرنے میں وہ معذور نہیں گردانا جائے گا؛ کیوں کہ جن چیزوں سے اس نے راہ فرار اختیار کی ہے، ان سے کہیں زیادہ سخت چیزیں اس کی منتظر ہیں۔
دنیا میں غم و آلام کی کثرت ہے، بسا اوقات آدمی ایک غم سے چھٹکارا نہیں پاتا کہ دوسرے کا شکار ہوجاتا ہے، ایک حادثہ سے جان نہیں چھوٹتی کہ دوسرا آ دبوچتا ہے، ایک مایوسی سے نہیں نکلتا کہ دوسری کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ لوگ یوں ہی بیماری و تندرستی، فقر و غنا، عزت و ذلت اور سعادت و شقاوت کے درمیان ہچلولے کھاتے رہتے ہیں۔ تو اگر ہر غم زدہ اپنی جان گنوانے لگے اور ہر درد کا مارا یوں ہی موت سے ہم آغوش ہوتا رہے، تو دنیا میں رہائش دوبھر ہوجائے اور دنیا انسانوں سے خالی ہوجائے!!!
’’قاتل‘‘ مجرم اسی وجہ سے ہے کہ وہ پتھر دل ہے اور لوگوں پر رحم کے جذبے سے خالی ہے…… لیکن خود اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں موت کے منھ میں دھکیلنے والا اس سے بھی زیادہ سخت دل اور بے رحم ہے؛ کیوں کہ اس کی اپنے آپ سے کوئی ایسی دشمنی اور بغض و عداوت نہیں ہے، جو قاتل و مقتول کے درمیان ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ قاتلوں سے بڑا قاتل اور مجرموں سے بڑا مجرم ہے۔
خود کش اپنے آپ کو یہ دھوکہ دیتاہے کہ موت کو گلے لگا کر وہ زندگی کے مصائب و آلام سے چھٹکارا پا جائے گا اور اس کا یہ کام بڑی دانائی و بصیرت کا ہے، لیکن اسے کیا خبر کہ موت کی تنگنائیوں میں سے پہلے ہی مرحلے پر قدم رکھنے سے اس کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے اور وہ ان تنگنائیوں سے نکل کر پھر زندگی کی ہل چل میں شریک ہونا چاہے گا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
اگر کوئی خود کشی کرنے کے لیے اپنے آپ کو پانی کے حوالے کرتا ہے، تو معاً بعد وہ ہاتھ پاؤں مارتا ہے، تاکہ کوئی اسے موت کے منھ میں جانے سے بچالے، خواہ اس کے لیے اس کو اپنا پورا سرمایہ ہی کیوں نہ داؤ پر لگانا پڑے۔
اگر کوئی اپنے آپ کو کمرے میں بند کرکے اور گیس بھر کر موت سے بغل گیر ہونا چاہے، تو دوسرے ہی لمحے وہ یہ خواہش کرے گا کہ مکان کی چھت اُڑ جائے اور بادِ نسیم کا کوئی جھونکا آئے، جو اس کی روح اور جسم و جان کو تر و تازہ کردے؛ خواہ بقیہ زندگی لولا لنگڑا اور سماعت و بصارت سے محروم ہوکر ہی اسے زندگی کیوں نہ گزارنی پڑے!!!