ماہِ ربیع الأول: آداب و احکام

6 minute read
0


ربیع الاول وہ مبارک و محترم مہینہ ہے، جس میں دعائے ابراہیمی اور بشارت عیسوی نے پہلوئے آمنہ سے ظاہر ہوکر زیر و بالا کو منور کر دیا، جس کی بدولت انسانیت کے بھاگ جاگ گئے ، اس کے تنِ مردہ میں روحِ تازہ دوڑ گئی ، خفتہ طبیعتیں بیدار ہوگئیں اور بیدار ہوشیار بنے ، وہ جس کی بصیرت سے نابیناؤں نے بصیرت پائی اور ناشنوا شنوا ہوئے ، جس کی ایک آواز سے کفر کی دنیا بر باد ہوئی اور توحید کا عالم تعمیر ہوا، جس کی ایک پکار سے ظلمت ِ شرک کا فور ہوئی اور نورِ ایمان چمک اٹھا، آتش کدۂ فارس بجھ گیا ، قصرِفارس کے کنگرے زمین بوس ہو گئے، دریائے ساوہ خشک ہو گیا ، بت کدوں میں لرزہ طاری ہو گیا اور صنم کدے ٹوٹ گئے ۔

جو ساری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا ’’وما أرسلنک إلا رحمۃ للعالمین ‘‘ جس کی ذات مقصد تخلیق کائنات تھی۔ ’’فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولا آدم ما خلقت الجنۃ ولا النار‘‘ الخ۔(المستدرک للحاکم:۲/ ۶۷۱، رقم الحدیث: ۴۲۲۷)

گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ حسن نہ ہو سیاروں میں 

(مولانا ظفر علی خان )

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے 

(علامہ اقبال)

خداوند قدوس نے سرکار دو جہاں علیہ الصلاۃ والسلام کو انسانیت اعلی اور عبدیت کبری کے اعلی ترین مقام پر فائز کیا، جس میں کوئی دوسرا نبی آپ کا شریک و سہیم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں دیگر انبیاء کا جہاں جہاں تذکرہ ہے، وہاں ان سب کو ان کے ناموں سے پکارا اور اگر لفظ ’’عبد‘‘ استعمال کیا بھی، تو ساتھ ہی ساتھ نام کی تصریح بھی فرمادی؛ چنانچہ سورہ مریم میں ہے : ’’ اذکر رحمت ربک عبدہ زکریا ‘‘ سورہ ص میں ارشاد فرمایا : ’’واذکر عبدنا داؤد‘‘ نیز ’’واذکر عبدنا أیوب‘‘۔

لیکن سید المسلمین محبوب رب العالمین محمدمصطفی احمدمجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں بھی خطاب فرمایا، وہاں نہ تو آپ کانام  لیا، نہ ہی کسی دوسرے وصف سے پکارا، بلکہ صرف لفظ ’’عبد‘‘ سے یاد فر مایا

’’سبحن الذی أسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی ‘‘پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندہ کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک۔ (سورہ بنی اسرائیل:1)

سورۂ جن میں فرمایا: ’’وأنہ لما قام عبد اللہ یدعوہ، کادوا یکونون علیہ لبدا۔‘‘ (سورۂ جن:۱۹) اور یہ کہ جب کھڑا ہوا اللہ کا بندہ کہ اس کو پکارے ، لوگوں کا بندھنے لگتا ہے اس پر ٹھٹھ ۔ 

سورۂ کہف کو اس آیت سے شروع کیا : ’’الحمد للہ الذی أنزل علی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا‘‘ سب تعریف اللہ کو جس نے اتاری اپنے بندہ پر کتاب اور نہ رکھی اس میں کچھ کجی۔

سورۂ فرقان کی پہلی آیت ہے : ’’تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا‘‘۔بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر ، تا کہ رہے جہاں والوں کے لیے ڈرانے والا ۔

اسی طرح سورۂ نجم (۱۰) میں کہا: ’’فأوحی إلی عبدہ ما أوحی ‘‘ نیز کبھی صدائے عزت سے نوازا : ’’یایھا المزمل‘‘اور کبھی محبت سے پکارا : ’’یا یہا المدثر‘‘۔

جہاں تک ربیع الاول کے مہینے میں ذکر میلاد کی مجلسوں کا سوال ہے، تو کون حرماں نصیب ہے، جو انھیں مطلقاً نا جائز کہہ دے، کتاب بارہ مہینوں کے فضائل و احکام میں ہے: ’’البتہ حدود کے اندر رہ کر ذکر مبارک رسول مقبول صلی اللہ علیہ سلم منجملہ ا عظم البرکات اور افضل القربات ہے کہ کسی مومن کو خصوص ساعی فی اتباع السنتہ کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا ۔ لیکن کیا منعقد ہونے والے موجودہ جلسوں اور محفلوں کی صورت حال یہی ہے؟ بالکل نہیں ! فتاوی محمود یہ میں ہے:

نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا ذکر مبارک خواہ ذکر ولادت ہو یا عبادات، معاملات ، جہاد، شب و روز کے نشست و برخواست کا ذکر ہو، بلا شبہ باعث ثواب موجب خیر و برکت ہے، مگر مجلس میلاد، مروجہ طریق پر بے اصل، خلاف شرع اور بدعت ہے، بہت قبائح اور منکرات پر مشتمل ہوتی ہے، ابن امیر حاج نے مدخل:جلد ۲/ ۳۲ میں اس کے مفاسد کو شمار کرایا ہے۔

پھر دو صفحے کے بعد مزید لکھتے ہیں:

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں اس مجلس میلاد کو منعقد نہیں کیا جاتا تھا، حالانکہ وہ تمام امت سے زیادہ نبی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی تعظیم و تو قیر کرتے تھے تعظیم و توقیر کا حاصل بھی یہی ہے کہ آپ کی سنت کی اتباع کریں اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کے لیے جان و مال ، اولا د سب کچھ خدا کے راستہ میں فنا کر دیں ، وہاں یہ معمول نہ تھا جو کہ آج کل رائج ہے کہ داڑھی چہرے پر نہیں ، احکام شرع کی پابندی نہیں ، رات بھر مولود پڑھا، جس میں موضوع اور غلط روایات سنائیں، کچھ اشعار گائے ، محلہ والوں کو سونے نہیں دیا، مجلس میں حد سے زیادہ روشنی وغیرہ کر کے ایک تماشہ کی شکل بنائی اور آخر شب میں مٹھائی اور کچھ نقد لے کر گھر آکر سوئے تو صبح کو اٹھے، نو بجے نیند سے بیدار ہوئے ، نماز کا تو ذکر ہی کیا ہے؟ اگر کسی نے شرکت مجلس سے یا قیام سے انکار کیا، یا یہ کہہ دیا کہ ایسی مجلس جس سے صبح کی نماز قضاء ہو جاوے، نا جائز ہے۔ تو اس پر وہابیت اور کفر کے فتویٰ لگانا شروع کر دیں ۔‘‘ (فتاوی محمودیہ، باب البدعات و الرسوم: ۳/۱۶۵ ، ۱۶۸، ڈابھیل)

آئیے! دل کے دریچوں کو وَا کر لیجئے اور محفل ِ میلاد کے تعلق سے امیر الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک تحریر پڑھئے۔ شاید اس آتشیں تحریر سے نکلنے والی چنگاری کسی کے دامن ِ دل تک پہنچ ہی جائے

’’ تم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہو، مگر تمہیں اپنے دل کی اُجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو، مگر اپنے دل کی اندھیاری کو دور کرنے کے لیے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈھتے، تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو، مگر تمہارے اعمالِ حسنہ کا پھول مر جھا گیا ہے، تم گلاب کی چھینٹو سے اپنے رومال و آستین کو معطر کرنا چاہتے ہو، مگر تمہاری غفلت ، کہ تمہاری عظمتِ اسلامی کی عطر بیزی سے دنیا کی مشامِ روح یکسر محروم ہے۔

کاش! تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں، تمہارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زیب و زینت کا ایک ذرہ نصیب نہ ہوتا، تمہاری آنکھیں رات رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں، تمہاری زبانوں سے ماہِ ربیع الاول کے لیے دنیا کچھ نہ سنتی، مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی، تمہارے دل کی بستی نہ اجڑتی، تمہارا طالع خفتہ بیدار ہوتا اور تمہاری زبانوں سے نہیں، مگر تمہارے اعمال کے اندر سے اسوۂ حسنۂ نبوی کی مدح و ثنا کے ترانے اُٹھتے۔ (ربیع الاول اور جشن ِ تذکار ولادتِ نبوی)


٭…٭…٭ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !