’’حسد‘‘ کہتے ہیں: دوسروں کی نعمتیں، راحت و آرام دیکھ کر جلنے اور نعمت والے سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا اور خواہش کرنے کا، خواہ وہ نعمت مجھے ملے یا نہ ملے۔
زوال نعمۃ الغیر۔ أو أن یتمنی ألا یعطي اللہ غیرہ شیئا من النعم۔ (اللباب:۶؍۴۲۵)
’’حسد‘‘ سے ملتی جلتی ایک اور چیز ہے، جسے عربی میں ’’غِبْطَۃٌ‘‘ اور اردو میں ’’رشک‘‘ کہتے ہیں۔ ’’رشک‘‘ یہ ہے کہ ’’نہ دوسرے کی نعمت بری معلوم ہو اورنہ اس کی بربادی چاہے، بلکہ دل یوں چاہے کہ اس جیسی نعمت مجھے بھی حاصل ہوجائے۔‘‘
’’رشک‘‘ مذموم اور ناپسندیدہ نہیں، بلکہ یہ ایک مثبت سوچ ہے، کیوں کہ کوئی آدمی جب یوں چاہے گا کہ یہ نعمت مجھے بھی مل جائے، تو اس کے لیے کوشش اور محنت کرے گا۔ اور یہ ایک اچھی سوچ ہے، جس سے معاشرے میں لوگوں کے درمیان اچھی چیزوں کے حاصل کرنے میں’’مسابقت‘‘ اور ’’ریس‘‘ کا جذبہ بڑھے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان جیسی نعمتوں اور اچھائیوں سے مالامال ہونے کی کوشش کریں گے۔
البتہ ’’حسد‘‘ انتہائی مذموم اور ناپسندیدہ ہے اوریہ آنکھوں سے نظر نہ آنے والی ایک ایسی مہلک قلبی بیماری ہے، جس کی وجہ سے حاسد مسلسل اذیت اور تکلیف میں مبتلا رہتا ہے۔
احادیث میں بھی اس پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لیس منا ذو حسد و لا نمینمۃ و لا کہانۃ و لا أنا منہ۔‘‘ (الترغیب:۳؍۵۴۴)
حسد کرنے والے، چغلی کرنے والے اور کہانت والے کا نہ مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا کہ ’’اللہ کے راستہ میں لگا ہوا گرد و غبار اور جہنم کی گرد دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ اور ایمان و حسد دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔
ولا یجتمع في جوف عبد الایمان و الحسد۔ (حوالہ بالا)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو، نہ قطع تعلق کرو۔ اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہوجاؤ!!! (صحیح مسلم: جلد ۴؍ صفحہ: ۱۹۸۳)
ایک اور روایت میں ہے ۔ آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا: حسد سے بچو؛ کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے۔ (سنن ابی داؤد ، ج: ۴؍ صفحہ: ۲۷۶)
حدیث پاک میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، تو اتنے میں ایک انصاری آئے، جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے، اور انھوں نے بائیں ہاتھ میں جوتیاں لٹکا رکھی تھیں، اگلے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی، تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے، جس طرح پہلی مرتبہ آئے تھے، تیسرے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسی ہی بات فرمائی اور پھر وہی انصاری اسی حال میں آئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے، تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان انصاری صحابی کے پیچھے گئے، اور ان سے کہا کہ میرا والد صاحب سے جھگڑا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے میں نے قسم کھالی کہ میں تین دن تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنے یہاں مجھے تین دن تک ٹھہرا لیں! انھوں نے کہا: ضرور۔ حضرت عبد اللہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ان کے پاس تین راتیں گزاریں، لیکن میں نے ان کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا، البتہ جب رات کو ان کی آنکھ کھل جاتی، تو بستر پر اپنی کروٹ بدلتے اور تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے، اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے، اور نماز فجر کے لیے بستر سے اٹھتے، ہاں! جب بات کرتے، تو خیر ہی کی بات کرتے، جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام ہی سے نظر آئے، تو میں نے ان سے کہا اے اللہ کے بندے! میرا والد صاحب سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا، نہ کوئی ناراضگی ہوئی، اور نہ میں نے انھیں چھوڑنے کی قسم کھائی، بلکہ قصہ یہ ہوا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے، اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے، اس پر میں نے سوچا کہ میں آپ کے یہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں، اور پھر اس پر عمل کروں، میں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں، لہذا آپ بتائیں کہ وہ کون سا آپ کا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپ اس درجہ کو پہنچ گئے!!!
انھوں نے کہا کہ میرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں، وہی اعمال ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں، میں یہ سن کر چل پڑا، جب میں نے پشت پھیری، تو انھوں نے مجھے بلایا اور کہا میرے اعمال تو وہی ہیں تو آپ نے دیکھے، البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے، اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا کر رکھی ہو، تو میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا۔ میں نے کہا: اسی چیز نے آپ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔ (حیاۃ الصحابہ: ۲؍ صفحہ: ۴۵۸، ۴۵۹)
پروردگار عالم نے ہر گناہ اور غلطی کی ایک سزا مقرر کر رکھی ہے، جب سزا کا وقت آتا ہے، تو غلطی کرنے والے کو وہ سزا بھگتنی پڑتی ہے، مثلا: شراب کا عادی شراب پیتے ہوئے تو سُرور و کیف محسوس کرتا ہے، البتہ شراب پی پی کر جب وہ بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، تب اُسے تکلیف ہوتی ہے۔ جوا باز مستی سے جوا کھیلتا ہے، لیکن جب اس کی وجہ سے کنگال ہوجاتا ہے، تو کفِ افسوس مَلتا اور انتہائی نادم و پشیمان ہوتا ہے۔ چور چوری کرتا رہتا ہے، اُسے چوری کرتے ہوئے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی، البتہ جب پکڑا جاتا ہے، تب اپنی اِس بُری خصلت پر پچھتاتا ہے۔ لیکن ’’حسد‘‘ ایک ایسا گناہ اور ایک ایسی بیماری ہے، جس کی وجہ سے حاسد مسلسل اذیت اور تکلیف کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: (گلستاں:صفحہ ۲۷)
توانم ایں کہ نیازارم اندرونِ کسے حسود را چہ کنم کو زخود برنج در ست
بمیر تا برہی اے حسود کیں رنج ست کہ از مشقتِ او جز بمرگ نتواں رُست
میں یہ کر سکتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری نہ کروں، لیکن میں حاسد کا کیا کروں؟ کیوں کہ وہ خود اپنی وجہ سے مبتلائِ رنج و الم ہے۔ اے حاسد! تو موت کو گلے لگا لے۔ کیوں کہ یہ ایسا درد ہے، جس کی تکلیف سے بجز موت کسی اورچیز کے ذریعہ چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا۔
’’حسد‘‘ کے مذموم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، گویا وہ اللہ کی تقسیم پر معترض ہوتا ہے کہ فلاں بندے کو اتنی نعمت کیوں دی؟
حاسد چاہتا ہے کہ دوسرے کی نعمت چھن جائے، دوسرے کی راحت و سکون غارت ہوجائے اور اس کا عیش و آرام مُکَدَّر (بے لطف) ہوجائے، مگر چوں کہ یہ اس کے بس میں ہوتا نہیں، اس لیے وہ مسلسل اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔
ہر بیماری کا علاج ہے۔ اور حسد کا علاج یہ ہے کہ حاسد حسد کرنے کے بجائے اس راستے کو اختیار کرے، جس پر چل کر فلاں آدمی نعمتوں سے مالامال ہوا ہے، تاکہ یہ خود اُن نعمتوں سے بہرہ ور اور لطف اندوز ہو۔
مثلا: اگر کسی کو کسی کے مال سے حسد ہے، تو وہ بھی وہی جائز طریقہ اپنائے، جس پر چل کر فلاں نے مال حاصل کیا ہے، اگر علم و ادب سے حسد ہو، تو خود بھی علم و ادب سے آراستہ ہونا چاہئے، اگر کسی کی ڈگری سے حسد ہے، تو خود بھی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اگر کوئی حسد کرنے کے بجائے یہ طرزِ عمل اختیار کرے گا، تو امید ہے کہ ایک دن وہ ان نعمتوں کو حاصل کرلے گا۔ اور اگر اس نے حسد چھوڑ کر اُس جیسی محنت نہیں کی، بلکہ پیچ و تاب کھاتا رہا اور فلاں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا، تو ایک دن یہ خود ہی نقصان اُٹھائے گا۔
اللہ تعالی ہم سب کو حسد جیسی مہلک بیماری سے محفوظ فرمائے۔