اقصی کے شاہین

5 minute read
0


 دنیا حیران ہے کہ بظاہر گوشت پوست کا جسم رکھنے والے یہ جیالے کس (Material) مواد سے بنے ہیں، جو اسرائیلی گنوں، بندوقوں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر پوری دنیائے صہیونیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ بھوکے پیاسے، بے آسرا لوگ کس طرح پوری طاغوتی دنیا کے ذہن و دماغ پر سوار ہیں، جو خواب میں بھی طاغوتیوں کو ڈراتے اور سہماتے رہتے ہیں، جنھوں نے انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میں بھی ’’القدس‘‘ کی حفاظت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، … دشمنوں کی نگاہوں سے گزرے بغیر غلے کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ ان کے آشیانوں تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن پھر بھی لب نعرہ تکبیر اور دل ’’المسجد الاقصی‘‘ کی حفاظت کے جذبے سے لبریز ہیں، دن کی بے چینیوں اور رات کی بے قراریوں کا محور اگر ہے، تو وہ صرف اور صرف ’’مسجد اقصی‘‘ کی حفاظت ہے۔ 

کیا جوان کیا بوڑھے، کیا مرد اور کیا عورتیں، حتی کہ بچوں میں بھی ’’المسجد الاقصی‘‘ سے والہانہ عقیدت و محبت اور اس کے لیے سر کٹانے اور جان دے دینے کا وہ جذبہ ہے، جو دنیا کی کسی دوسری قوم کے افراد کو میسر نہیں … یہ فولادی جگر رکھنے والے ایسے دیوانے ہیں جنھوں نے دنیا کے بڑے بڑے فرزانوں کو مات دے رکھی ہے۔ 

بھلا نہتے فلسطینیوں کا مسلح اسرائیلی فوجیوں سے کیا جوڑ؟ فاقہ کش شاہینوں کا آسودہ بھیڑیوں سے کیا ٹکر؟ بے یار و مددگار انسانوں کا دنیا بھر کی حمایت یافتہ حکومت سے کیا ٹکراؤ؟ …… لیکن ظاہر بیں نگاہیں حیران ہیں کہ یہ فاقہ مست نادار لوگ صہیونیت کے جبڑے میں گھس کر اس کے جگر پر کیسے وار کرتے ہیں؟؟؟ 

اللہ اللہ! ! ! صہیونیوں کے نرغے میں گھرے ہوئے محصور و مجبور انسانوں کی طرف سے ایسی حیرت انگیز شجاعت و جواں مردی کہ صہیونی بلبلا اٹھے اور ان کے آقاؤں کے حواس باختہ ہوگئے!!! 

…… غاصب صہیونی تلملا کر پھر وہی خاک و خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، معصوم بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، نہتے لوگوں پر بم و بارود کی بارش برسارہے ہیں، گڑ گڑاتے ہوئے ٹینکوں سے زمین تھرا رہی ہے، چنگھاڑتے ہوئے جنگی جہازوں سے فضا مرتعش ہے، ماحول میں بارود کی بو بسی ہوئی ہے،’’مسجد اقصی ‘‘ کی فضا پھر سوگوار ہے ، ’’اقصی‘‘ کی زمین معصوموں کے خون سے لالہ زار ہے، اس مقدس سرزمین پر جگہ جگہ کٹی پھٹی لاشوں کے انبار ہیں، ظالموں کے نشانے پر عام شہری ہیں، شیطان صفت غاصبوں نے اسپتال کو بھی نہیں بخشا اور علاج کے لیے لائے گئے ہزاروں معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا، راکٹوں اور میزائلوں سے غزہ کے ہزاروں گھروں کو زمین بوس کردیا۔ 

موجودہ دور جمہوریت کا دور کہلاتاہے، اس دور میں انسانی حقوق کے تحفظ کا غلغلہ ہے، انسانوں سے گزر کر چرند اور پرند تک کے حقوق کی حفاظت و رعایت کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے، اس کے لیے بڑی بڑی عالمی تنظیمیں قائم ہیں، عالمی طور پر بڑے بڑے سیمینار اور پروگرام منعقد کیے جاتے اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کی بات کی جاتی ہے، مگر یہ سب ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں، ان کا مقصد صرف عالمی طاقتوں کا تحفظ اور کمزوروں اور بے کسوں کی ہلاکت پر گھڑیالی آنسو بہانا یا مذمتی قرار داد پیش کرکے بیٹھ جانا ہے۔

عالمی میڈیا جس کی تیز نگاہیں کسی مسلمان کی جیب میں پڑا ہوا ننھا سا چاقو دیکھ کر اسے انسانی دنیا کے لیے ہلاکت خیزی کا سبب گردانتی اور بم و بارود سے زیادہ تباہ کن بنا کر پیش کرتی ہیں، انھیں غزہ کے ہسپتال میں علاج کے لیے آئے ہوئے ہزاروں معصوموں پر گرنے والے راکٹ اور بم میں کوئی دہشت گردی اور انسانیت سوزی نظر نہیں آئی۔ 

اسپتال اور طبی مراکز پر حملہ کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، لیکن حیوان صفت اسرائیل نے ہمیشہ اس قانون اور اس جیسے بہت سے قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں … حالیہ جنگ میں بھی اس نے بین الاقوامی اصول و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حیوانیت کا ننگا ناچ ناچا ہے۔ چنانچہ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ئ؁منگل کی شام کو غزہ پٹی میں واقع ’’الاہلی عرب اسپتال‘‘ پر صہیونی بھیڑیوں نے بم و بارود کی بارش کردی اور اسپتال میں زیر علاج ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں تڑپادیا۔ اسپتال قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔ اسپتال کے ڈاکٹروں نے اس بمباری کے ایسے ہولناک مناظر اور تفصیلات بیان کی ہیں، جنھیں سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ 

تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹوٹے پھوٹے اعضا، کٹی پھٹی اور چیتھڑوں میں تبدیل لاشوں کے درمیان ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی، انسانیت سسک رہی تھی، حیوانیت مسکرا رہی تھی، معصوموں کی شہادت پر ابلیسیت اور دجالیت خندہ زن تھی… غزہ کے نائب وزیر صحت ڈاکٹر یوسف ابو الریش نے اسپتال کے ڈاکٹروں کی معیت میں ان سیکڑوں لاشوں کے درمیان کھڑے ہوکر پریس کانفرنس کی ۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ڈاکٹر احمد یوسف اللوح نے بتایا کہ ’’ہم نے یہاں قتل عام اور لوگوں کی نسل کشی ہوتے دیکھی ہے، شہداء کی تعداد شمار کرنا مشکل ہے، شہداء کی لاشیں مختلف حصوں میں بکھری پڑی ہیں، عالمی رہنماؤں کو اہل غزہ کے خلاف قتل عام اور نسل کشی کو بند کرانا چاہئے۔‘‘ 

غزہ کے اس اسپتال میں رضاکارانہ طور پر خدمت انجام دینے والے فلسطینی برطانوی ڈاکٹر غسان سلیمان نے بھی وہاں کے حالات سے دنیا کو باخبر کیا اور کہا کہ ’’شہید ہونے والوں میں پچاس فیصد سے زیادہ بچے ہیں۔‘‘ 

…… یہ سب کچھ ہورہا ہے، مگر اللہ رے جرات و ہمت کے پتلے!!! اقصی کے شاہین آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ’’الاقصی‘‘ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ آفریں ہے ان پر جنھوں نے ہمت ہارنا نہیں سیکھا ہے۔ تحریر کردہ: ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ئ؁ شب یک شنبہ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !