خدا کا دھیان

5 minute read
0
\



 اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :وللہ الأسماء الحسنیٰ فادعوہ بہا۔(سورۃ الاعراف : ۱۸۰) اور اسماء حسنیٰ(یعنی اچھے اچھے نام ) اللہ ہی کے ہیں ، لہٰذااسکو انہیں ناموں سے پکارو ۔اور اسماء حسنیٰ میں سے اسم ’’رقیب‘‘بھی ہے، جو قرآن کریم میں متعدد جگہ وارد ہوا ہے ؛ چانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں ’’وکا ن اللہ علیٰ کلّ شی رقیبا‘‘ (سورۃالاحزاب:۵۲) اللہ ہر چیز کی پوری نگرانی کرنے والا ہے یعنی اللہ ہمارے تمام اعمال واقوال کی پوری نگرانی کرنے والا ہے ؛ خواہ ہم کوئی کا م خفیہ کریں یا علانیہ ۔اللہ رب العزت ایک اور مقام پر ارشاد فر ماتے ہیں ’’کیا انھو ں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی خفیہ باتیں اور ان کی سر گوشیاں نہیں سنتے۔ کیسے نہیں سنتے ؟ نیز ہمارے فرشتے ان کے پاس ہیں ، وہ سب کچھ لکھتے رہتے ہیں۔‘‘ ( الزخرف:۸۰ )  چنانچہ جو شخص بولتا ہے اللہ اسکی گفتگو کو جانتے ہیں ، جو خاموش رہتا ہے اس کی سوچ کو جانتے ہیں اور جو دل میں کوئی راز چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس راز کو بھی جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمیں میں جو کچھ ہے اللہ اسے جانتا ہے ؟ کبھی تین آدمیوں میں کوئی سر گوشی ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا وہ نہ ہو اورنہ پانچ آدمیوں کی کوئی سر گو شی ایسی ہوتی ہے جس میں چھٹا وہ نہ ہو اور چاہے سرگوشی کر نے والے اس سے کم ہو ں یا زیادہ ، وہ جہاں بھی ہو ں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ، پھر وہ قیامت کے دن انھیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کہا تھا ، بیشک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے:‘‘ (سورۃ المجادلۃ :۷)

لہٰذا اللہ تعالیٰ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے، جس کسی مادہ کو جو حمل ہوتا ہے ، اللہ اسکو بھی جانتا ہے اور ماؤں کے رحم میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اس کو بھی اور ہر چیز کا اسکے یہاں ایک اندازہ مقرر ہے ۔ وہ غا ئب و حاضر تمام باتوں کو جاننے والاہے ، اسکی ذات بہت بڑی ہے اسکی شان بہت اونچی ، تم میں سے کوئی چپکے سے بات کرے یا زور سے ۔ کوئی رات کے وقت چھپا ہوا ہو یا دن کے وقت چل پھر رہا ہو ، وہ سب (اللہ کے علم کے لحاظ سے) برابر ہیں ۔ (سورۃ الرعد :۱۰۸)

اللہ تعالیٰ کا دھیان عظیم الشان چیز ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر چیز اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا دھیا ن جمائیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ انسان کی ہر حالت سے آگاہ اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ اسکے ظاہر وباطن اور خفیہ و آشکارا باتوں کو خوب اچھی طرح سے جانتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ اللہ رب العزت سے اس طرح دعا کیا کرتے تھے ’’ اللہم أ سأ لک خشیتک فی الغیب والشھا دۃ ـ‘‘(النسائی : ۱۳۰۸) یعنی اے اللہ ! میں آپ کے خوف و خشیت کا سوال کرتا ہوں ظاہر میں بھی اور اس حالت میں بھی جب لوگوں کی نگا ہیں مجھے نہ دیکھ سکیں ۔ اور یہی غیب کا معنیٰ ہے کہ آدمی خفیہ اور علانیہ ہر حالت میں خدا سے ڈرے ؛ چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ـ: جو لوگ بن دیکھے اپنے پرور دگار سے ڈرتے ہیں انکے لئے بیشک مغفرت اور بڑا اجر ہے ۔’’(سورۃ الملک : ۱۲ )ایک بزرگ فرماتے ہیں :’’جب تم کوئی عمل کرو تو تمہاری نظر اللہ کی طرف ہو ، جب گفتگو کرو تو دھیا ن رکھو کہ اللہ سن رہے ہیں اور جب خاموشی اختیا ر کرو تو سمجھ لوکہ اللہ تمہارے دلوں میں گزرنے والے خیالات کو بھی جانتے ہیں (سیر أعلام النبلائـ: ۱۱؍۴۸۵،والقائل ہو حاتم الأصم )

 پھر جب انسان کے اندر یہ شعورو احساس بیدار ہو جائے گا تو اس کی عبادت میں پختگی اور عبادت کو کماحقہ ادا کرنے کے لئے جہد ومشقت برداشت کرنے کا جذبہ پید ا ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں اسے ’’مقا م احسان‘‘ حا صل ہو جائے گا اور’’مقام احسان‘‘کو بیان کرتے ہوے نبی کریم ﷺ نے ار شاد فرمایا :’’الا حسان أن تعبداللہ کأنک تراہ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک‘‘(متفق علیہ) احسان یہ ہے کہ تم خداکی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر (تمہیں یہ کیفیت نصیب نہیں) تم اسے نہیں دیکھ رہے تو (کم ازکم یہ یقین ہی پیدا کر لو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔

’’مراقبۂ خداوندی‘‘ انسان کو شیطانی کچوکوں اور نفسانی لغزشوں سے بچاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے، ایک حدیث پاک میںہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ فرشتے اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں اے پرور دگا ر تیرا فلاں بندہ گناہ کرنا چاہتا ہے ۔ تو اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں اس کا انتظا ر کرو پھر اگر وہ برائی کرلے تو اسکے لئے اس برائی کے بقدر گناہ لکھو اور اگر وہ برائی کو چھوڑ دے تو اس کیلئے نیکی لکھو کیونکہ اس نے وہ برائی میری ہی وجہ سے چھوڑی ہے۔‘‘ (مسلم :۲۰۵ ) اس حدیث میں محض گناہ چھوڑ دینے پر اجر وثواب کی بشارت دی گئی ہے اس سے پتہ چلا کہ خدا کا دھیان اوراس کا خوف عظیم ترین نیکی ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’ لیکن  وہ جواپنے پرور دگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی ۔‘‘ (النازعات:۴۰،۴۱) بعض علما ء کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو گناہ کاارادہ کرے پھر اسے حساب وکتاب کے لئے خدا کے سامنے کھڑا ہونا یا د آجائے اور وہ اس گناہ کو چھوڑ دے (تفسیر البغوی:۸؍۳۳۰) 

خداتعالیٰ ہم سب کو اپنا دھیان نصیب فرمائے گناہوں سے باز رہنے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے ، آمین ۔

٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !