ادیب و شاعر زندگی اور سماج و معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں، ان کی نبض شناس انگلیاں سماج کی نبض پر ہوتی ہیں، سماج کی دھڑکنوں کے ساتھ ان کا دل بھی دھڑکتاہے، وہ اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، اس میں اپنے دل کی دھڑکنیں سمو دیتے ہیں اورپھر وہی دھڑکنیں؍ احساسات؍ خیالات قلم کے ذریعے سینۂ قرطاس پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔
محترمہ سیما شکور (حیدر آباد) کے منتخب مضامین کا تازہ مجموعہ ’’خوشبو‘‘ بھی معاشرے کی انھیں دھڑکنوں کا عکاس ہے، خوشبوؤں کی ایک ایسی مالا جس میں گردشِ لیل و نہار اور زندگی کے تلخ تجربات سے حاصل شدہ بہت سے موتی پروئے ہوئے ہیں۔ اور جس میں سماج کے اندر پنپنے والی برائیوں کی ایک صحیح اور مکمل تصویر پیش کرکے ان کے سد باب کی کوشش کی گئی ہے۔
اس میں ایک درد مند دل کی پکار، سماج کے زخموں پر نالہ، باطل کو للکارتی ہوئی صدائے حق، ملت کی زبوں حالی کی فریاد، مسلمانوں کی پسماندگی اور ذلت و رسوائی کا مرثیہ، غیرت و حمیت کے بیوپاریوں کو جھنجھوڑنے والی للکار، صنف نازک کے رِستے ہوئے زخم، کمزوروں کا درد، ضعیفوں کی بے کسی، اپنوں کی بے التفاتی اور بے رخی، غیروں کی اذیت ناکی اور ایذا رسانی کو انتہائی لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔ موصوفہ نے اپنے قلم سے عیاش انسانوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے، فقیہ ِ شہر کو للکارا ہے، صاحبانِ مسند و تخت کے عماموں کے پیچ کھولے ہیں، اپنے آنچل کو علم بغاوت بنا کر باطل کے ایوانوں پر لہرانے کی کوشش کی ہے، قائدین ملت کی دراز قبائوں کے چیتھڑے اڑائے ہیں، چلتی پھرتی لاشوں کو جھنجھوڑا ہے، ظالموں کی آستینوں پر لگے خون کے دھبوں کو اُجاگر کیا ہے، سیاسی بازیگروں کے کھوکھلے دعووں اور گیتوں کی تان توڑنے، ان کے زاویہ ہائے رقص بدلنے اور ان کی مسکراہٹوں کو آزردہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح فقر و فاقہ، ظلم و بربریت، اقتدار کے گلیاروں، عدالت کے ایوانوں اور جہالت و ناداری کی کوکھ سے جنم لینے والی سیکڑوں سیاسی، سماجی اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی ہے اور سماج کو ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ ہونے پر آمادہ کیا ہے۔
موصوفہ نے ان مضامین کے ذریعہ معاشرہ کی سربرآوردہ شخصیات، سماجی کارکنوں، مذہبی شخصیات اور سیاسی لیڈران غرض ہر ایک کو جھنجھوڑا ہے اور معاشرے کو سدھارنے میں اپنا حصہ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل ہر مضمون کا نشانہ کوئی نہ کوئی سماجی برائی ہے، موصوفہ محترمہ نے اس کے لیے مختلف عمدہ پیرایے اور اسلوب اختیار کیے ہیں اور اپنے ترکش میں موجود تمام تیروں کا رخ سماجی برائیوں کی طرف کرکے ان کے استیصال کی بھر پور کوشش کی ہے۔ خدا کرے، ان کی یہ کوشش بارآور ہو، سماج میں پھیلی ہوئی بدبو ختم ہو اور اس کتاب کی ’’خوشبو‘‘ سے پورا معاشرہ مہک اُٹھے۔