’’باز یافت‘‘ کی باز گشت
اردو اور عربی زبان و ادب کی والہ و شیدا ،نازک احساسات اور اچھوتے خیالات کی حامل ادیبہ ’’غزالہ پروین‘‘ اس سنگم کا نام ہے، جہاں اردو اور عربی زبان وادب کے دھارے آ کر ملتے اور قوس قزح کا سا ایک خوش نما اور سحر انگیز رنگ و آہنگ پیدا کرتے ہیں، اس سنگم میں علم و ادب، تہذیب و شائستگی، سکون و وقار اور وجاہت و تمکنت کی لہریں آکر مدغم ہوجاتی ہیں، یہ سنگم محض دو زبانوں کا سنگم نہیں، بلکہ اپنے دامن میں علم و فن کی وراثت سمیٹے دو تہذیبوں کا سنگم ہے۔
موصوفہ ایک تعلیم یافتہ شریف گھرانے میں پیدا ہوئیں، لہذا علم و ادب، تہذیب و شائستگی انھیں وراثت میں ملی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدرآباد سے عربی میں ایم ۔اے کیا اور اب اورنگ آباد میں ڈاکٹر رفیق زکریا کالج کے شعبۂ عربی میں بحیثیت لیکچرار خدمات انجام دے رہی ہیں۔
محترمہ تقریبا تین دہائیوں سے اردو کے ساتھ عربی زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، وہ اپنی طالبات کی عربی تکلم و انشاء پردازی کی استعداد و صلاحیت کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہیں اور بھارت کے اندر خاص کر خواتین کے حلقے میں عربی زبان و ادب کے دائرۂ اثر کی توسیع و ترویج کے لیے کوشاں۔موصوفہ قابل مبارک باد ہیں؛ کیوں کہ بھارت میں اردو اور عربی دونوں زبانوں کی حامل اور ان سے دل چسپی رکھنے والی خواتین کم کم ہیں۔
زندگی کی بھاگ دوڑ، درس کی تیاری، کالج کی ہمہ ہمی اور مختلف کاموں کے ہجوم میں گھرے ہونے کے باوجود ان کا ادبی ذوق یاد دہانی کراتا ہے، رشتۂ فکر کی گرہیں کھلتی ہیں، جدتِ فکر نقش آرائی کرتی اور وسعتِ تخیل رنگ و روغن بھرتی ہے ، تو وہ اپنے دست شوق کی سرگرمیوں کو کام میں لاتی ہیں اور یوں کوئی ادبی، تحقیقی یا تنقیدی مضمون صفحۂ قرطاس پر پھیلتا چلا جاتا ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ موصوفہ مردوں کے ساتھ اردو اور عربی کی خواتین شاعرات و ادیبات کا تذکرہ بھی کرتی ہیں، تاکہ نسل نو ان سے رُوشاس ہو اور اسے پتہ چلے کہ ان زبانوں کی ترویج و اشاعت اور ان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاطت و صیانت میں خواتین کا کردار بھی کچھ کم نہیں!!!
موصوفہ کا اسلوب آسان اور سادہ و پرکار ہے، بہترین عکاسی کرنے والے اچھوتے عناوین دامن ِدل کو کھینچتے ہیں، ساتھ ساتھ جگہ جگہ عام فہم عربی الفاظ و تعبیرات کی گل کاری جاذب نظر بنی رہتی ہے، آج کے دور میں جب کہ اردو زبان میں بکثرت اور بہ تکلف انگریزی الفاظ کے استعمال کا چلن عام ہے، اس عام روش سے ہٹ کر اپنی تحریر و تکلم میں عام فہم عربی الفاظ و محاورات کا استعمال قابل ستائش اور قابل تقلید ہے۔ ورنہ اردو کے نام کی روٹیاں کھانے والے بھی ’’استعمال‘‘ کی جگہ (Use) کرنا اور ’’برف‘‘ کی جگہ (Ice) بولتے ہیں۔ اور اردو کے نام پر ملنے والے اعزازیہ؍ ہدیہ کی رقم بھی دستخط کے بجائے (Singe) کرکے وصول کرتے ہیں۔
موصوفہ ایک عمدہ نثر نگار ہونے کے ساتھ بہترین شاعرہ بھی ہیں، نظم و نثر دونوں کی زبان سہل اور دل کش ہے، البتہ کہیں کہیں جملوں کی طولانی یک گونہ الجھاؤ پیدا کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے روانی اور بے ساختگی پر حرف آتا اور عبارت کی چاشنی کم ہوجاتی ہے۔
موصوفہ نے جن سلاطینِ قرطاس و قلم کے خاکے میں اپنے مو قلم سے رنگ بھرا ہے، وہ مختلف صدیوں اور زمانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، کوئی کسی صدی سے تعلق رکھتا ہے، کوئی کسی صدی سے، موصوفہ کے قلم نے صدیوں کے اس فاصلے کو سمیٹ کر ان ادیبوں کی یاد تازہ کر دی اور اس کتاب کی شکل میں ایک ایسا حسین مرقع تیار کر دیا ہے، جس میں کوئل کی کوک، پپیہے کی صدا، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ،پرندوں کا نغمہ، آب رواں کا ترنم، پھولوں کی رنگین ادائیں، لطف و مسرت کی گدگداہٹ کے ساتھ درد و غم کی کسک اور رنج و آلام کے چَرکے، نسیم صبح گاہی کی مسیحائی اور شام الم کی دُہائی، تعمیر کی نقش آرائی اور تخریب کی برہم زنی، حنائی انگلیوں میں گلاب کی پنکھڑی لے کر چاند کی پیشانی پر لکھی جانے والی غزلوں اور خونِ دل میں فگار انگلیاں ڈبو کر تحریر کی جانے والی نظموں اور مرثیوں کی کہانی، نیز ہندو عرب تعلقات کی تاریخ پر دسترس رکھنے والے بعض نابغہٴ روزگار مصنفین کے تذکرے … غرض بہت کچھ شامل ہے۔ موصوفہ نے یہ مضامین جمع کرکے ایک بزمِ کیف و سرور سجائی ہے اور نپے تلے پیمانے کی جگہ جام کے جام لنڈھائے ہیں۔
اس مجموعے میں جن ادباء وشعراء کا تذکرہ ہے، ان میں سے ہر ایک کے افکار و نظریات سے سو فیصد اتفاق ضروری نہیں، البتہ ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے اور کتاب میں اسی پہلو سے ان کا تذکرہ ہے، لہذا اس سلسلے میں ’’خذ ما صفی و دع ما کدر‘‘ کا طرز اختیار کرنا چاہئے۔
کتاب کا نام ’’بازیافت‘‘ معنی خیز ہے، جس سے وہ نئی نسل کو اردو اور عربی زبان و ادب کے قدیم و معتبر مرد و خواتین قلم کاروں سے روشناس کرانا چاہتی ہیں، تاکہ نئی پود مذکورہ زبانوں کے سیکڑوں سالوں پر محیط، گراں قدر ادبی و تہذیبی ورثہ کی اہمیت اور قدر و قیمت سے واقف ہوکر اس کی حفاظت و صیانت میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
لیجئے! اس کتاب میں پھیلے ہوئے ادبی اور تحقیقی مضامین سے اپنے کام و دہن کو شاد کیجئے اور نسیم صبح گاہی کے شفا بخش جھونکوں جیسے اس جام صبح گاہی سے لطف اٹھائیے۔
موصوفہ کا قلم ابھی رواں دواں ہے، لہذا اس کتاب کو آئندہ کتابوں کی اشاعت کی تمہید تصور کرنا چاہئے، یقینا آئندہ مزید علمی، ادبی، تنقیدی اور تحقیقی مضامین موصوفہ کے نوک قلم سے آشنا ہوں گے۔
امید ہے کہ ’’باز یافت‘‘ کی ’’باز گشت‘‘ دور اور دیر تک سنی جائے گی!!!
محمد اظہار قاسمیؔ ضلع سنت کبیر نگر، یوپی
قلمی نام: ابن سراج قاسمیؔ
فضیلت، عربی ادب و افتاء : دار العلوم، دیوبند
استاذ فقہ و ادب مدرسہ عربیہ ریاض العلوم، گورینی، ضلع جون پور
موبائل نمبر: 9389597963
ای میل: mizhar565@gmail.com