ایک جوان کو اپنے والد سے وراثت میں بہت سا مال ملا، چوں کہ مال مفت ہاتھ آیا تھا، یہ اس کے خون پسینے کی کمائی تو تھی نہیں، اس لیے اس نے بغیر کسی حساب کتاب کے اَللّے تللّے اُڑانا شروع کر دیا!
بے فکرے نوجوانوں کے جمگھٹے لگنے شروع ہوئے، رنگ و آہنگ کی محفلیں سجنے لگیں، حاتم طائی کا دستر خوان سجنے لگا اور دادِ عیش دی جانے لگی۔
ایک دن اس میراث یافتہ نوجوان کے باپ کا ایک دوست آیا، اس نے برخوردار کے یہ ہاؤ بھاؤ دیکھے، تو کہنے لگا: ’’مجھے تمہارے زرق برق لباس اور احوال دنیا میں تمہاری دلچسپی سے خوشی ہوئی، خدا باپ کی جانب سے ملے ہوئے مال میں تمہیں برکت دے۔
پھر وہ اس کے پاس سے اُٹھ کر چلا گیا، جب شام ہوئی تو اُس نے اپنا نوکر کے ہاتھ جوان کے پاس یہ پیغام بھجوایا: آج رات تمہارے والد کے دوستوں کا ہمارے یہاں اجتماع ہے ، وہ تم سے ملنے کے خواہش مند ہیں اور والد کے وصال پر تمہیں پُرسہ اور تسلی بھی دینا چاہتے ہیں، اس لیے آج رات کے کھانے پر ہمارے یہاں آنے کی زحمت کرو۔ جوان نے ہامی بھری اور حاضر ہونے کا وعدہ کرلیا۔
وقت مقررہ پر وہ والد کے دوست کے مکان پر حاضر ہوا، تو وہاں والد کے تمام دوستوں کو موجود پایا، پھر صاحبِ مکان نے نوجوان کی ضیافت کرنی شروع کی، وہ اس طرح کہ اس نے اپنے نوکروں کو اشارہ کیا، نوکر جو پہلے ہی سے سدھائے ہوئے تھے، نوجوان پر ٹوٹ پڑے، نوجوان نے بہت ہاتھ پیر مارے، مگر اس کی ایک نہ چلی، نوکروں نے اسے قابو کرکے رسی سے باندھ دیا، پھر صاحب مکان نے اس پر چیختے ہوئے غضب ناک آواز میں کہا: او جاہل نوجوان! کیا تو سمجھتا ہے کہ تیرے باپ کے گذرنے کے بعد تجھے روک ٹوک کرنے والا اور تیرا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے؟ کیا تجھے پتہ نہیں کہ تیرے باپ نے مال کے ساتھ یہ دوست بھی چھوڑے ہیں، ان میں سے ہر ایک تیرا باپ ہے، جو فضول خرچی کرنے اور دادِ عیش دینے پر تیرا ہاتھ پکڑ لے گا اور سخت سزا دے کر تجھے تیری غلطی سے باز رکھے گا!!!
اس کے بعد باپ کے سارے دوست اس کے پاس کھڑے ہوئے ، اسے ڈانٹا، لعنت ملامت کی اور اس سے عہد و پیمان لیا کہ وہ آج کے بعد سے ضروری امور اور خیر و بھلائی کے علاوہ اور کسی فضول کام میں پیسہ نہیں اُڑائے گا۔۔۔ باپ کے دوستوں نے رسی ڈھیلی کردی۔۔۔ اس واقعے کے بعد نوجوان کی حالت میں بہتری آئی، اس نے اپنی سابقہ عادات سے توبہ کی اور باپ کے دوستوں کا شکر گزار ہوا، جنھوں نے اسے قعرِ مذلت میں گرنے بچایا۔ اب جب بھی وہ اپنے والد کے کسی دوست سے ملتا تو اسے سلام کرتا اور کہتا: خوش آمدید، میرے والد کے بعد آپ ہی میرے والد ہیں! (’’المکافاۃ و حسن العقبی لأحمد بن الکاتب/۱۸،۱۹‘‘سے ترجمانی)
حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار اور ایک مشہور صحابی ہیں، ان کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر یا اپنا تکیہ پیش فرما کر ان کا اکرام فرمایا تھا، وہ فرماتے ہیں: ’’بایعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی إقام الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ و النصح لکل مسلم۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الرحمۃ و الشفقۃ علی الخلق: ۴۲۳، قدیمی)
ترجمہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پابندی کے ساتھ نماز پڑھنے، مال کی زکاۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ ‘‘
نماز اور زکاۃ دین کے بنیادی ارکان ہیں، ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، جب کہ ’’خیر خواہی‘‘ میں بندوں کے تمام حقوق آتے ہیں۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا، تمام صحابہ کرام کی طرح زندگی بھر اسے اپنے سینے سے چمٹائے رکھا۔
کتابوں میں حضرت جریر رضی اللہ عنہ کا واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ ایک شخص سے تین سو درہم کے عوض ایک گھوڑا خریدا، پھر بیچنے والے سے فرمایا کہ تمہارا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے، کیا تم اس کی قیمت چار سو درہم لوگے؟ اس نے کہا: ابنِ عبد اللہ تمہار ی مرضی! پھر حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ گھوڑا چار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اور اس طرح انھوں نے اس گھوڑے کی قیمت آٹھ سو درہم ادا کی۔ جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں گا۔ (جب میں نے دیکھا کہ گھوڑا مالک کی طلب کی ہوئی قیمت سے زیادہ کا ہے، تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی۔ (مظاہر حق: ۴/ ۵۰، دار الاشاعت، کراچی)
کیا خیر خواہی کے ایسے جذبات ہمارے اندر بھی ہیں؟ اور کیا بُرائی سے باز رکھنے کے لیے اس طرح کی کارگر تدابیر ہم نے بھی کبھی اختیار کی ہیں؟؟؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: ’’الدین النصیحۃ۔‘‘ ( صحیح مسلم، باب الدین النصیحۃ: ۱/ ۵۴) دین دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا نام ہے۔
اس نفع و ضرر کی دنیا میں، یہ ہم نے دیا ہے درسِ جنوں
اپنا تو زیاں منظور مگر، اوروں کا زیاں منظور نہیں
٭ ٭ ٭