![]() |
گھر واپسی کی حقیقت (۲) |
جمہور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ مراد عقائد صحیحہ توحید و ایمان پر سب کا متحد ہوناہے، سورہٴ یونس میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت آئی ہے۔وَمَا کَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ (۱۹:۱۰) یعنی سب آدمی ایک ہی امت تھے پھر آپس میں اختلاف پڑگیا اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ازلی فیصلہ نہ ہوتا (کہ اس عالم دنیا میں حق وباطل کھرا کھوٹا سچ اور جھوٹ ملے جلے چلیں گے تو قدرت الٰہیہ ان سب جھگڑوں کا ایسا فیصلہ کردیتی کہ حق سے اختلاف کرنے والوں کا نام ہی نہ رہتا)
اور سورۃ انبیاء میں فرمایا :اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ(۹۲:۲۱) یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں؛ اس لئے سب میری ہی عبادت کرتے رہو ۔
اسی طرح سورہٴ مؤمنون میں فرمایا :وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّــقُوْنِ (۵۲:۲۳) یعنی یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔
ان تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ وحدت سے عقیدہ ومسلک کی وحدت اور دین حق توحید و ایمان میں سب کا متحد ہونا مراد ہے۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ دین حق اسلام و ایمان پر تمام انسانوں کا اتفاق واتحاد کس زمانہ کا واقعہ ہے یہ وحدت کہاں تک قائم رہی؟ مفسرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے حضرت ابی بن کعب اور ابن زید نے فرمایا کہ یہ واقعہ عالم ازل کا ہے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کرکے ان سے سوال کیا گیا تھا ’’الست بربکم‘‘ یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اور سب نے بلا استثناء یہ جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہمارے رب اور پروردگار ہیں اس وقت تمام افراد انسانی ایک ہی عقیدہٴ حق پر قائم تھے جس کا نام ایمان واسلام ہے (قرطبی)
اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ یہ وحدتِ عقیدہ کا واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آدم علیہ السلام مع اپنی زوجہ محترمہ کے دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور پھیلتی گئی وہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے دین اور انہیں کی تعلیم وتلقین کے تابع توحید کے قائل تھے اور سب کے سب باستثناء قابیل وغیرہ متبع شریعت وفرماں بردار تھے۔
مسند بزار میں حضرت ابن عباس کے اس قول کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ وحدت عقیدہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ادریس علیہ السلام تک قائم رہی اس وقت تک سب کے سب مسلم اور توحید کے معتقد تھے اور آدم علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام کے درمیان زمانہ دس قرن ہے بظاہر قرن سے ایک صدی مراد ہے تو کل زمانہ ایک ہزار سال کا ہوگیا، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ وحدت عقیدہ کا زمانہ وہ ہے جب کہ نوح علیہ السلام کی بددعا سے دنیا میں طوفان آیا اور بجز ان لوگوں کے جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے تھے باقی ساری دنیا غرق ہوگئی تھی طوفان ختم ہونے کے بعد جتنے آدمی اس دنیا میں رہے وہ سب مسلمان، موحد اور دین حق کے پیرو تھے۔
درحقیقت ان تینوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں یہ تینوں زمانے ایسے ہی تھے جن میں سارے انسان ملت واحدہ اور امت واحدہ بنے ہوئے دین حق پر قائم تھے۔(معارف القرآن:۱؍۵۱۰)
عقائد و افکار اور خیالات میں اختلاف کے ساتھ بت پرستی کیسے شروع ہوئی؟حضرت مولانا محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ سورۂ نوح کی تفسیر(لا تذرن وداً ولا سواعاًو لایغوث ویعوق ونسراً) میں لکھتے ہیں:
امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ یہ پانچوں دراصل اللہ کے نیک و صالح بندے تھے جو آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیانی زمانے میں گزرے تھے ان کے بہت سے لوگ معتقد اور متبع تھے ان لوگوں نے ان کی وفات کے بعد بھی ایک عرصۂ دراز تک انہیں کے نقش قدم پر عبادت اور اللہ کے احکام کی اطاعت جاری رکھی، کچھ عرصہ کے بعد شیطان نے ان کو سمجھایا کہ تم اپنے جن بزرگوں کے تابع عبادت کرتے ہو اگر ان کی تصویریں بنا کر سامنے رکھا کرو تو تمہاری عبادت بڑی مکمل ہوجائے گی، خشوع وخضوع حاصل ہوگا۔یہ لوگ اس فریب میں آ کے ان کے مجسّمے بنا کر عبادت گاہ میں رکھنے اور ان کو دیکھ کر بزرگوں کی یاد تازہ ہو جانے سے ایک خاص کیفیت محسوس کرنے لگے، یہاں تک کہ اسی حال میں یہ لوگ سب یکے بعد دیگرے مر گئے اور بالکل نئی نسل نے ان کی جگہ لے لی تو شیطان نے ان کو یہ پڑھایا کہ تمہارے بزرگوں کے خدا اور معبود بھی بت تھے وہ انہی کی عبارت کیا کرتے تھے یہاں سے بت پرستی شروع ہوگئی اور ان پانچ بتوں کی عظمت ان کے دلوں میں چوں کہ سب سے زیادہ بیٹھی ہوئی تھی اس لئے باہمی معاہدے میں ان کا نام خاص طور سے لیا گیا-(معارف القران جلد :۸؍صفحہ ۵۶۶،۵۶۷)
پتہ چلا کہ اصل دین دین توحید ہے اور کفر و الحاد اور شرک و بت پرستی نفس و شیطان کے بہکاوے سے بعد کی پیداوار ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اصل دھرم اسی کو قرار دیا گیا ہے اور واضح لفظوں میں توحید و رسالت کی تعلیم دی گئی ہے اور بہت سے سادھو سنتوں اور مذہبی پیشواؤں نے بھی کھلے لفظوں میں اس کا اظہار کیا ہے؛ چنانچہ ڈاکٹر چمن لال گوتم لکھتے ہیں:
رشیوں نے مورتی پوجا کا طریقہ رائج کیا تاکہ وہ اس مورتی کو ذریعہ بناکر اس لامحدود ہستی کو جسمانی شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکیں۔(وشنورہسیہ،ڈاکٹر چمن لال گوتم:۱۴۹)
صرف ایک سب سے طاقتور خدا کو اپنا مالک مانتے ہوئے خود غرضی اور گھمنڈ چھوڑ کر خلوص،جذبہ اور سچے پیار کے ساتھ لگاتار تفکر کرنا ہی ایسی عبادت ہے جو بدکاری سے پاک ہے۔(تفسیر گیتا۳۲۶،مطبوعہ کلیان گورکھپور)
ذرا سوچو تو محبت کرنے والی بیوی کا ایک ہی شوہر ہوتا ہے اس لیے جو پرستار ایمان رکھتا ہے اس کا ایک ہی خدا ہے دوسرے خداؤں کا ساتھ ہرگز نہ ڈھونڈو، دوسرے خداؤں کا نام لینا بدکاری ہے۔(اسلام کا ہندو تہذیب پر اثر (ڈاکٹر تاراچند) اردو ترجمہ چودھری رحم علی الہاشمی صفحہ :۱۵۳،۱۵۴،آزاد کتاب گھر دہلی)
اب ہندو مذہبی کتب سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
ہندو ویدانت کا برہم سوتر یعنی کلمۂ خدا مندرجہ ذیل ہے(एकंब बृहम द्वितीय नासते: नेट ना नासते किंचन)ایک ہی خدا ہے دوسرا نہیں ہے نہیں ہے نہیں ہے ذرا سا بھی نہیں ہے۔ (اسلام درشن مصنفہ ڈاکٹر گنیش دت سارسوت. پروفیسر شعبہ ہندی آر ایم پی پوسٹ گریجویٹ کالج سیتاپور صفحہ :۱۹)
ویدانت ہی میں خدا کے لیے کہا گیا ہے:(एकम एवम कदितीयम)وہ ایک ہی ہے دوسرے کی شرکت کے بغیر
وہ تمام جاندار اور بے جان دنیا کا بڑی شان و شوکت کے ساتھ اکیلا حکمران ہے وہ جو انسانوں اور جانوروں کا رب ہے اسے چھوڑ کر ہم کس خدا کی حمد کرتے ہیں اور نذرانے چڑھاتے ہیں۔(رگ وید:۳،۱۲۱،۱۰بحوالہ: اگر اب بھی نہ جاگے تو:۱۲۰)
اس کے علاوہ ہندو مذہبی کتابوں میں حضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے دیگر انبیاء کا تذکرہ موجود ہے؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہے:
آدم اور حوا وشنو کی گیلی مٹی سے پیدا ہوئے……گناہ والے درخت کے نیچے جا کر بیوی کو دیکھنے کی بیتابی سے آدم حوا کے پاس گئے، تبھی سانپ کی شکل بنا کر وہاں فورا شیطان نمودار ہوا،اس چالاک دشمن کے ذریعہ آدم اور حوا ٹھگ لئے گئے اور وشنو کے حکم کو توڑ ڈالا اور دنیا کا راستہ دکھانے والے اس پھل کو شوہر نے کھا لیا۔(ان اشلوکوں میں آدم کی جگہ اصل سنسکرت میں لفظ آدم حوا کی جگہ حویہ وتی (हवयवती) جنت کی جگہ پر دان نگر (पर्दान नगर)یعنی انعامات کی بستی اور شیطان کی جگہ کلی(कील)استعمال ہوئے ہیں۔(اگر اب بھی نہ جاگے تو۔ویدک دھرم اور رسالت باب :۱۰؍صفحہ ۱۲۶)یہ ہے اصل سچائی اور انسانیت کا اصل مذہب۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کی اصل اورباپ ہیں، اسی طرح دین اسلام تمام انسانوں کا اصل مذہب ہے؛ چنانچہ آج بھی سعادت مند روحیں کفر و شرک کی دلدل سے نکل کر دامن ِ اسلام سے وابستہ ہورہی ہیں۔
عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں
وہ یہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کوئی نہیں
٭…٭…٭