گھر واپسی کی حقیقت (۱)

6 minute read
0

گھر واپسی کی حقیقت (۱)

 اللہ رب العزت کے نزدیک سچا، بر حق اورمقبول دین صرف دین اسلام ہے’’ إن الدین عند اللہ الإسلام(البقرۃ:۱۹)  جس کی کتاب قرآن مجید ہے جو نبی امی فداہ أبي وأمي محمد بن عبد اللہ علیہ افضل الصلوات والتلسیم پر نازل ہوئی، اس دین کے علاوہ جتنے بھی ادیان و مذاہب موجودہ صورت میں ہیں، خواہ و ہ ادیان سماویہ ہوں یا غیر ، سب کے سب تحریف شدہ اورباطل ہیں، اوران کی مثال ٹکسال سے باہر گڑھے ہوئے سکوں جیسی ہے کہ کہنے کو تو وہ سکے ہیں، مگر جب چل نہ سکیں تو ان کا سکہ ہونا اور نہ ہونا برابر ہے، اسی طرح روز قیامت صرف اورصرف دین اسلام کا سکہ چلے گا، دیگر مذاہب کے مصنوعی اورغیر ٹکسالی سکے نہیں چل سکیں گے، ارشاد خداوندی ہے’’ ومن یبتغ غیر الإسلام دینا فلن یقبل منہ‘‘(آل عمران:۸۵) اور جو کوئی دین اسلام کے سوا کوئی اوردین چاہے، تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ ہوگا۔

موجودہ دور کی گندی سیاست نے صرف اپنے مفاد کے لیے دین و مذہب کا استحصال کرنا شروع کیا اوربعض سیاسی لال بجھکڑوں اور اسکیم سازوں نے مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے اور ووٹوں کا پولرائزیشن کرنے کے لیے ’’گھر واپسی‘‘ کا ایک نیا شوشہ چھوڑا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ ہندوستان کی ساری اقلیتوں بشمول مسلمان کے باپ دادا ہندو تھے، ان کی اصل ہندو ہے، لہٰذا انھیں اپنے’’ اصل گھر‘‘ ہندو مت کی طرف لوٹ جانا چاہئے اور دلیل و برہان کی زبان میں بات کرنے کے بجائے شر انگیزیوں سے کام لیا اور طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے اقلیتوں میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کیا، خدا کا شکر ہے کہ اس سیاسی غبارے کی ہوا جلد ہی نکل گئی، مگر معصوم اور بھولے بھالے ذہنوں میں شکوک وشبہات کے جراثیم پیدا کر گئی، آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ افسانہ حقیقت سے کس قدر دور ہے:
نام نہاد دانشور، ناواقف اورمتعصب لوگ جب اپنے قیاس و گمان کی بنیاد پر مذہب کی تاریخ مرتب کرتے اور سب سے پہلے انسان کے دین و مذہب کی تحقیق و جستجو کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک و کفر کی تاریکیوں سے کیا، پھر تد ریجی طور پر پیغمبروں کے سمجھانے بجھانے سے توحید کی روشنی حاصل کی، مگر یہ افساد بے بنیاد اورمحض اٹکل ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان نے توحید کی جگمگاتی ہوئی روشنی میں اپنی آنکھیں کھولیں؛چنانچہ دنیا اوردنیا کے ایک ایک ذرے کو وجود بخشنے والے اور کائنات کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم رکھنے والے رب نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرما کر جس طرح انھیں سب سے پہلا انسان بنایا، اسی طرح انھیں سب سے پہلا نبی ، موحد ، حق پرست اورمسلمان بھی بنایا اورآج بھی جو انسان پیدا ہوتا ہے، فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر ماحول و معاشرے کے دخل سے وہ دیگر ادیان و مذاہب اختیار کرلیتا ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’ فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ  اللّٰہِ ذٰلِکَ  الدِّیْنُ  الْقَیِّمُ ا وَلٰکِنَّ  اَکْثَرَ  النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘(الروم:۳۰) (لہٰذا یکسو ہوکر اپنا رخ دین پر مرتکز کردو، یہی فطرت الٰہی ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی اس خلقت میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکتا، یہی درست دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہر نو مولود دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے جانور سے صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے، کیا ان میں سے کوئی کان کٹا بھی ہوتا ہے؟ ( صحیح البخاری:۱۳۵۸) یعنی جس طرح جانور سلیم الاعضاء اورمکمل پیداہو تاہے، بعد میں لوگ کان، یا دم وغیرہ کاٹ دیتے ہیں، اسی طرح ہرانسان فطری طور پرمسلمان پیدا ہوتا ہے، بعد میں ماں باپ کے اثر سے اپنی اصل فطرت سے ہٹ کر دوسرے مذاہب اختیار کرلیتا ہے۔
اوریہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اورا نھیں دنیا میں بھیجے جانے کے بعد ایک عرصے تک لوگ دین حق پر قائم رہے، قرآن کریم میںارشاد خداوندی ہے: کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً۔( البقرۃ:۲۱۳) ابتدا میں سب لوگ ایک ہی امت تھے( ایک ہی طریقے پر تھے،پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور نفسانی خواہش اور شیطان کے زیر اثر اختلافات رونما ہونے لگے) تو اللہ نے نبی بھیجے، جو ( راست روی پر) بشارت دینے والے اور (کجروی پر) ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے مابین جو اختلافات پیدا ہونے لگے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔
یعنی اللہ رب العزت نے سب سے پہلے انسا ن حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا، تو انھیں یہ بھی بتادیا کہ صحیح راستہ کیا ہے اور تمہیں کس کی عبادت و بندگی اورفرماں برداری کرنی ہے، اس کے بعد ایک مدت تک نسلِ آدم راہِ راست پرقائم رہی اورایک امت بنی رہی ، لیکن پھر لوگوں نے نفسانی خواہشات اورشیطان کے بہکاوے کے سبب اپنے جائز حق سے بڑھ کر منافع حاصل کرنے، ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کے لیے نئے نئے راستے نکالے اورمختلف طریقے ایجاد کرلیے، اور یوں عقائد و اعمال میں اختلاف کی نوبت آگئی اور حق و باطل میں التباس ہونے لگا؛ چنانچہ انھیں سدھارنے اوردوبارہ راہِ حق پر لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ جاری فرمایا، جنھوں نے اپنے اپنے وقتوں میں دین حق کے منور چہرہ کو بدعات و خرافات اورغلط عقائد و افکار کی آلودگیوں سے پاک صاف کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اسی دین حق پر دوبارہ جمنے کی دعوت دی، جس پر سب انسان پہلے قائم تھے ، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، یہ انبیاء کوئی نیاد ین قائم کرنے نہیں آتے تھے، بلکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو اسی اصل دین حق کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتے تھے، آخر میں اللہ تعالیٰ شانہ نے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکر جو اکمل، جامع ترین، عالمگیر اورناقابل تنسیخ ہدایات دیں، اسے تمام شرائع سابقہ حقہ پر مع شیٔ زائد مشتمل ہونے کی وجہ سے خصوصی رنگ میں’’ اسلام ‘‘ کے نام سے موسوم و ملقب فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کی اصل اورباپ ہیں، اسی طرح دین اسلام تمام انسانوں کا اصل مذہب ہے؛ چنانچہ آج بھی سعادت مند روحیں کفر و شرک کی دلدل سے نکل کر دامن ِ اسلام سے وابستہ ہورہی ہیں۔
 مشرقی اورمغربی علوم کے شناور ،کسی زمانہ میں الحاد و دہریت کے علم بردار، پھرسیرت النبی کا ہوش آور جام پی کر آستانۂ تھانوی سے وابستہ ہونے والے، ناقد، محقق، مصنف، صحافی اورمفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد صاحب دریابادی نور اللہ مرقدہٗ ’’کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ آیت نے ایک بڑی گرہ کھول دی، فرنگی محققین حسب معمول مدتوں اس باب میں بھٹکتے رہے اوران میں سے اکثر یہی کہہ گئے کہ انسان کا ابتدائی مذہب شرک یا تعددِ الٰہ تھا، شروع شروع وہ ایک ایک چیز کو خدا سمجھتا تھا، اورعقیدئہ توحید تک تو نسلِ انسانی بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور عقلی و دماغی ارتقاکے بڑے طویل سفر کے بعد پہنچی ہے، قرآن مجید نے اس خرافاتی نظریہ کو ٹھکرا کر صاف اعلان کردیا کہ نسل ِ انسانی آغاز فطرت میں دینی حیثیت سے ایک اورواحد تھی، اس میںمذاہب و ادیان کے تفرقے کچھ بھی نہ تھے، نوع انسانی فطری اورجبلی طور پردین توحید ہی پر تھی…
صدیوں کی الٹ پھیر، قیل و قال کے بعد اب آخری فیصلہ بڑے بڑے ماہرین اثریات و انسانیات و اجتماعیات کا ( سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لینگڈن، پروفیسر شمڈٹ کا) یہی ہے کہ انسان کا دین اولین، دین توحید تھا۔‘‘ ( تفسیر ماجدی:۱؍۳۹۴)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !