ابنِ صفی کے شیدائی: اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

3 minute read
0

ابنِ صفی کے شیدائی: اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

زیادہ عرصہ نہیں گذرا، قصے، کہانیاں اور خاص کر ناولوں کا پڑھنے معیوب، بلکہ بعض مقامات اور مواقع پر’’ قابلِ دست اندازیٔ نگراں‘‘ ہوتا تھا، پڑھنے والے کیا کیا حیلے بہانے تراشتے تھے، یہ ایک دل چسپ روداد ہے، ناولیں کبھی آستین کے پردے میں درسگاہوں تک پہنچتی تھیں، کبھی درسی کتابوں کے اوراق ہی انھیں اپنے دامن میں جگہ دے دیتے تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چھوٹے سائز کی ناولیں بڑی جیبوں میں پناہ لے لیتیں۔
یقینا ان ناولوں اور کہانیوں میں بہت سی اصلاحی اور انقلابی کہانیاں بھی ہوتی تھیں، مگر طبیعتیں افسانے اور ناولوں کی طرف زیادہ لپکتی تھیں، اس لیے بعض قلم کاروں نے نئی نسل کو تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے ’’تاریخی ناولوں‘‘ کا سہارا لیا، جن میں تاریخی کرداروں کے پہلو بہ پہلو ’’ناولانہ رنگ‘‘ لیے کچھ دیگر کرداروں کو بھی شامل کردیتے، جس سے خشکی کم ہوکر تراوٹ آجاتی، طبیعتوں میں دل چسپی، گرماہٹ اور سسپنس برقرار رہتا اور یوں تاریخ جیسا خشک موضوع بڑی آسانی سے حلق سے اُتر کر دماغ کا حصہ بن جاتا۔
بیسویں صدی کے نصف اخیر میں اردو زبان میں جاسوسی ناولوں کے موجد اور معمار ’’ابنِ صفی‘‘ منظر عام پر آئے، ابن صفی کا طرزِ نگارش، کرداروں کے پیش کرنے کا انداز، دل چسپ اور چست مکالمات، تحیر، سسپنس، زبان و بیان کی شستگی، برجستگی، دُھلی دُھلائی زبان۔۔۔ ان سب کا آمیزہ ایسا سحر طاری کردیتا کہ قاری ان ناولوں کے پلاٹ اور کرداروں میں کھوکر رہ جاتا۔ شدہ شدہ ان کی ناولوں نے قارئین کے ایک بڑے حلقے کو اپنا اسیر بنالیا، لوگ ان کی ناولوں کے چھپنے کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔ 
دانش وروں اور طلبہ کا طبقہ بھی ان کے سحر کی زد سے نہ بچ سکا اور بہت جلد ابن صفی کی ناولوں نے ان کی بھاری بھرکم کتابوں کے بیچ اپنی جگہ بنالی۔ اور بدلے میں انھوں نے زبان و بیان کی شستگی، شگفتگی، رعنائی و زیبائی، لکھنے اور مافی الضمیر ادا کرنے کا البیلا اور اچھوتا انداز غرض بہت کچھ حاصل کیا۔ 
چناں چہ حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمیؔ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’پھر کسی صاحب نے ایک کتاب دی اور کہا کہ ناول ہی پڑھنا ہے تو جاسوسی ناول پڑھو، مصنف کا نام تھا’’ابن صفی بی اے‘‘ کتاب اچھی لگی، لیکن پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی، رفتہ رفتہ ابن صفی کے جو بھی ناول ملتے، وہ پڑھنے لگا، دل چسپی بھی ہونے لگی، سمجھ میں بھی آنے لگا، دورانِ تعلیم ۸/ سال کی مدت میں افسانوی ادب یا جاسوسی ناول کے نام پر جو بھی کتابیں پڑھیں، بیشتر ابن صفی ہی کے تھے، آج بھی اعتراف ہے کہ اردو زبان میں سلاست، شگفتگی اور شستگی جو بھی میری زبان یا تحریر میں آتی ہے، بیشتر حصہ ابنِ صفی کی تحریروں کی دین ہے۔ (یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ: ۲۴۸) 
ابن صفی کے علاوہ مشتاق احمد یوسفی، محی الدین نواب، شوکت تھانوی اور دیگر قلم کاروں کے شہ پارے، صدیق سالک کی دونوں کتابیں: ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ اور ’’ہمہ یارانِ دوزخ‘‘ مزاحیہ تحریروں میں فکر تونسوی اور مجتبی حسین کی تحریریں۔ عامر عثمانی کی تجلی۔ عبد الماجد دریابادی کا صدقِ جدید اور مولانا عثمان فارقلیط کا (روزنامہ الجمعیہ) نیز مولانا مسلم کا (اخبار دعوت) ان سب نے بہت متاثر کیا۔
پندرہویں صدی ہجری کی ابتداء میں قطر سے شائع ہونے والا ماہنامہ’’الأمۃ‘‘ بہت معتبر اور معیاری رسالہ تھا، آج تک میرے پاس اس کی فائلیں بحمد اللہ موجود ہیں۔(۲۴۹، حوالہ بالا اختصار کے ساتھ) 


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !