ابنِ صفی کے شیدائی : (۲) اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھي نام آتے ہیں

5 minute read
0

ابنِ صفی کے شیدائی : (۲) اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھي نام آتے ہیں

مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: 
ہمارے ایک چچا تھے، امجد حسین مرحوم و مغفور، وہ دن بھر تو دار العلوم کا کام کرتے، شام کو اپنی پان کی دکان پر بیٹھتے، رات کو دیر تک ابن صفی کے ناول پڑھا کرتے تھے، جب وہ سو جاتے تو ان کا ناول میں اپنے بستر پر لے آتا اور رات پڑھتے پڑھتے سو جاتا، صبح کو ان کا ناول میرے پاس سے برآمد ہوا کرتا تھا، مگر انھوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا، اب ابن صفی پسند آنے لگے، اسی زمانے میں دہلی جانا ہوا، وہاں میرے ایک رشتے کے چچا رہتے تھے، میں نے ان سے فرمائش کی کہ مجھے ابن صفی کے ناول چاہئیں، وہ مجھے لال قلعے کے سامنے لے کر گئے، فٹ پاتھ پر کتابوں کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے، ہر زبان کی پرانی کتابیں تھیں، لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے تھے، اردو کی کتابیں بھی بہت تھیں، ایک جگہ ابن صفی کے ناول بھی فروخت ہورہے تھے، میں نے ان کے تمام ناولوں کا ایک ایک نسخہ لے لیا، کچھ ناول نسیم حجازی اور صادق سردھنوی وغیرہ کے بھی تھے، موقع غنیمت تھا، چچا دلوارہے تھے، اس لیے جو کتاب بھی اچھی لگی وہ اٹھالی، اس طرح ناولوں سے ایک بوری بھر گئی، وہیں سے دیوبند کے لیے ٹرین پکڑی، چچا نے ہی سوار کرایا، گھر میں جس جگہ میں سویا کرتا تھا، وہاں کچھ خالی جگہ تھی، اسی خالی جگہ میں وہ بوری رکھ لی، برابر میں ایک خالی بوری رکھ لی، بھری ہوئی بوری میں سے ناول نکالتا اور پڑھ کر خالی بوری میں ڈال دیتا، اب یہ تو یاد نہیں رہا کہ کتنے روز میں بوری ختم ہوئی، البتہ اتنا یاد ہے کہ تمام ناول پڑھے، راتوں کو پڑھا کرتا تھا، موم بتی اور چراغ کی روشنی میں، ایک مرتبہ موم بتی گرگئی اور لحاف جل گیا، کپڑا جلنے کی بو پھیلی، تو ہمارے چچا کی آنکھ کھل گئی، وہ جلدی سے آئے اور میرے اوپر سے جلتا ہوا لحاف اٹھاکر پھینکا، اس وقت میری عمر تیرہ برس رہی ہوگی۔ 
ڈاکٹر طہ حسین، احمد امین مصری، منفلوطی، عباس محمود عقاد کی کتابیں خوب پڑھیں، مولانا ابو الحسن ندوی اور طہ حسین کے اسلوبِ نگارش میں بڑی مماثلت ہے، دونوں کے یہاں بڑی روانی پانی جاتی ہے، مترادفات کا استعمال بہت ہے، اور اچھا لگتا ہے، یہ دونوں حضرات قرآن و حدیث کی تعبیرات کو اپنی عبارتوں میں اس طرح سمو دیا کرتے تھے کہ وہ تعبیرات ان کی زبان کا حصہ معلوم ہوتی تھیں، علی میاں ندوی کے کئی چھوٹے چھوٹے رسالے جیسے ’’اسمعي یا مصر‘‘ ردۃ و لا أبابکر لہا‘‘ وغیرہ میں نے حفظ یاد کر لیے تھے۔ 
شیخ محمد عبد اللہ کی ’’آتشِ چنار ‘‘ جوشِ ملیح آبادی کی ’’یادوں کی بارات‘‘ سردار دیوان سنگھ مفتون کی ’’ناقابلِ فراموش‘‘ احسان دانش کی ’’جہانِ دانش‘‘ مشاقِ احمد یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘ قدرت اللہ شہاب کی ’’شہاب نامہ‘‘ علی میاں ندوی ؒ کی ’’کاروان زندگی، پرانے چراغ‘‘ مولانا عبد الماجد صاحب دریابادی کی آپ بیتی، مولانا منظور احمد نعمانی کی ’’تحدیثِ نعمت‘‘ پڑھيں۔
طنز و مزاح میں کتابیں تو بہت پڑھیں، لیکن محمد خان کی کتابوں کا جواب نہیں، ’’بہ جنگ آمد‘‘ ’’بہ سلامت روی‘‘ ’’بزم آرائیاں‘‘ وغیرہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، حلاوت، لطافت، ظرافت، سلاست، بانکپن، شگفتگی، شعریت، ادبیت، بے ساختہ پن، سب کچھ تو ہے ان کتابوں میں۔ 
مولانا عامر عثمانی کی ’’مسجد سے مے خانہ‘‘ بھی کئی بار پڑھی ہے۔ (حوالہ بالا : از ۲۵۴ تا ۲۵۵ باختصار) 
………………………………………………………………
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر:
میری مطالعاتی زندگی بڑی شاندار گذری، طالب علمی کے زمانے میں اوسطا ہر روز ایک کتاب پڑھ لیتی تھی، یہ کتاب کسی بھی نوعیت کی ہوسکتی تھی، ابنِ صفی کے جاسوسی ناول سے لے کر سید ابو الاعلی مودودی کی علمی و دینی کتب تک، کچھ بھی نہیں چھوڑتی تھی۔ پہلے گوشت کاغذ میں لپٹ کر آتا تھا، آج کل تو پلاسٹک کی تھیلیوں میں آتا ہے، وہ خون آلود کاغذ بھی پڑھ جاتی تھی۔ گھر میں کوئی کتاب ایسی نہیں تھی، جو پڑھنے سے رہ گئی ہو، یہ ایک نشہ ہے، جو آج بھی نہیں اُترا۔ (کتاب مذکور: ۲۸۶) 
میں آج بھی بارہ گھنٹے کام کرتی ہوں۔ 
جی رہی ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
( کتاب مذکور: ۲۸۷)
حوالے اور بھی ہیں، مگر ان کے لیے اصل کتاب دیکھیں، لطف آئے گا، نوع بنوع کتابوں سے آشنائی ہوگی، ذوقِ مطالعہ پروان چڑھے گا، شوق فراواں ہوگا، بھینی بھینی خوشبووں سے دماغ معطر ہوگا اور مطالعہ کی ترتیب اور طریقۂ کارنیز اسے مفید و مؤثر بنانے کے طریقوں کی رہنمائی حاصل ہوگی۔ واقعی ابن الحسن عباسی مرحوم و مغفور نے گلہائے رنگارنگ سے اس مجموعے کو زینت بخشی ہے۔ 
راقم سطور کا دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں درسی اور علمی کتابوں سے سابقہ رہا، وہاں کے مبارک ماحول کی وجہ سے شغف اور دل چسپی بھی درسی اور تحقیقی کتابوں سے رہی، البتہ دورۂ حدیث شریف کے بعد تکمیل ادب عربی کے سال جب یک گونہ آزادی ملی اور درسی کتابوں کا بوجھ کم ہوا، تو بعض احباب کی کرم فرمائی سے ابن صفی کی کچھ ناولیں ہاتھ لگیں، دو ایک ناولیں پڑھنے کے بعد ایسی چاٹ پڑ گئی کہ ان کی جستجو رہنے لگی اور ان ناولوں کے بغیر چھٹی کے اوقات (جمعرات و جمعہ) گذرنے مشکل ہوگئے، احباب کا دیا ذخیرہ ختم ہوگیا، تو انھوں نے دار العلوم دیوبند میں مدرسہ ثانویہ کے سامنے لبِ روڑـ ایک دکان کا پتہ بتایا کہ وہاں سے اس طرح کی کتابیں کرایہ پر دستیاب ہوجائیں گی، اس دوکان میں ناولوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا، کرایہ پر حاصل کرکے ان میں سے اکثر کو پڑھا، البتہ اس دوکان میں موجود ابن صفی کی تمام ہی ناولوں کا مطالعہ کیا، اسی زمانے میں فرید بک ڈپو ہلی سے ابن صفی کی ناولوں کے تازہ ایڈیشن کمپیوٹر کتابت اور عمدہ طباعت کے ساتھ شائع ہورہے تھے، ابن صفی کی جو ناولیں پڑھنے سے رہ گئی تھیں، پیسے کی قلت کے باوجود انھیں خرید کر پڑھا۔ ( آج بھی اس کی دو تین جلدیں میرے پاس محفوظ ہیں۔) اور یوں شدہ شدہ ابن صفی کے تقریبا تمام دستیاب ناول پڑھے۔

ابن سراج قاسمیؔ شبِ سہ شنبہ ۱۲/ جمادی الاولی 1446ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !