لیل و نہار کی یہ گردش، صبح دم سورج کی روشنی کا چمکنا دمکنا اور شام کو بے آب و رنگ ہوکر ڈوب جانا، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ اور اس کی افسردگی و اضمحلال، ماہ و سال کی آمد و رفت یہ سب کچھ اس لیے ہے؛ تاکہ کاروبارِ جہاں ایک نظام کے تحت چلے، عبادات و معاملات اور دیگر چیزوں کا حساب کتاب ٹھیک ٹھاک رہے۔ (وقدرناہ منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب: سورۂ یونس: ۵)
ارشادِ خداوندی ہے:
''یسئلونک عن الأهلة قل هي مواقیت للناس و الحج'' ( تجھ سے پوچھتے ہیں حال نئے چاند کا کہہ دے کہ یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے واسطے اور حج کے واسطے) یعنی ان سے کہہ دو کہ چاند کا اس طرح پر نکلنا، اس سے لوگوں کے معاملات اور عبادات مثل قرض، اجارہ، عدت، مدت حمل و رضاعت، روزہ، زکاۃ وغیرہ کے اوقات ہر ایک کو بے تکلف معلوم ہو جاتے ہیں۔'' (تفسیر عثمانی:13/1، مکتبہ جاوید، دیوبند)''إِنَّ عَدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللَّه أَثْنَا عَشَرَ شَہْرًا الخ'' (مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں) یعنی اللہ رب العزت نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے، بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لیے سال کے بارہ مہینے رکھے، جن میں چار اشہر حرم ( ادب کے مہینے ہیں ، جن میں گناہ اور ظلم سے بچنے کا اعر زیادہ اہتمام کرنا چاہئے ، یہ ہی سیدھا دین (ابراہیم علیہ السلام ) کا ہے۔ (حوالہ بالا: 553/1)
ماہ صفر یا کسی اور مہینے، دن اور تاریخ میں بے برکتی اور نحوست کا تصور انتہائی غلط اور بے بنیاد ہے؟ حدیث میں ہے: ''لا عدوی ولا طیرۃ ولا هام ولا صفر الخ'' نہ مرض کا تعديہ ہے (بلکہ جس طرح اولا حق تعالی کسی کو مریض بطاتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرف سے مریض کر دیتے ہیں۔ میل جول وغیرہ سے کوئی مرض کسی کو نہیں لگتا، یہ سب وہم ہے) اور نہ جانور اڑانے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے، (جیسا کہ بعض جگہ لوگوں میں مشہور ہے کہ داہنی جانب سے تیتر وغیرہ اڑے تو اس کو اچھا سمجھتے ہیں اور بائیں جانب سے اڑے تو منحوس خیال کرتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں) اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے (جیسا کہ عام طور پر لوگ اس کو منحوس خیال کرتے ہیں) اور نہ صفر کی نحوست کوئی چیز ہے۔ (اخرجہ البخاری (رقم الحدیث: ۵۷۱۷) ومسلم (رقم الحدیث: ۲۲۲۰)حدیث پاک کے آخری جملے '' ولا صفر '' کی تشریح میں اختلاف ہے، بہت سے متقدمین علماء (جن میں ابن عیینہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ وغیرہ بھی ہیں) کی رائے یہ ہے کہ ''صفر'' پیٹ کی ایک بیماری کا نام ہے، یعنی پیٹ میں سانپ کی طرح بڑے بڑے کیڑے ہوتے ہیں اور اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ یہ چھوت والی بیماری ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی نفی فرمائی، لیکن اس تشریح کی بناء پر ''لا صفر'' کا بھی وہی مفہوم ہوگا، جو''لا عدوی'' کا ہے، لہذا یہ عطف الخاص علی العام کی قبیل سے ہوکا۔دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ ''صفر'' سے مراد ماہِ صفر ہے، لیکن پھر اس کی تفسیر میں دو قول ہیں: امام مالک کا کہنا ہے کہ اس سے مراد دورِ جاہلیت میں رائج ''رسم نسی'' (حسبِ خواہش مہینوں کی تقدیم و تاخیر) کی نفی ہے۔عرب میں قدیم زمانے سے یہ معمول چلا آرہا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ''اشہر حرم'' (خاص ادب و احترام کے مہینے) مانتے تھے، یعنی ذو القعدۃ، ذو الحجہ، محرم اور رجب، ان میں خوں ریزی اور جدال و قتال قطعا بند کر دیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کار و بار کے لیے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کرسکتے تھے، کوئی شخص ان ایام میں اپنے قاتل سے بھی تعرض نہیں کرتا تھا، بلکہ بعض علماء نے لکھا کہ اصل ملتِ ابراہیمی یہ چار ماہ اشہر حرم قرار دیے گئے تھے۔
اسلام سے ایک مدت پہلے جب اہل عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال و قتال میں بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا اور اشہر حرم کا ادب و احترام ان کے آڑے آیا، تو انہوں نے "نسی" کی رسم نکالی، یعنی جب کسی زور آور قبیلے کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا، تو ایک سردار نے اعلان کیا کہ اس سال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کر دیا، پھر اگلے سال کہ دیا کہ اس سال حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا، اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کرلیتے تھے، لیکن ان کی تعیین میں حسب خواہش دروبدل کرتے رہتے تھے، اس کو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:''انما النسئ زیادۃ فی الکفر الخ (سورۃ التوبۃ :۳۷) یہ جو مہینہ ہٹادینا ہے، سو بڑھائی ہوئی بات ہے کفر کے عہد میں، گمراہی میں پڑتے ہیں اس سے کافر، حلال کر لیتے ہیں اس مہینہ کو ایک برس اور حرام رکھتے ہیں دوسرے برس؛ تاکہ پوری کر لیں گنتی ان مہینوں کی جو اللہ نے ادب کے لیے رکھے ہیں، پھر حلال کر لیتے ہیں جو مہینہ کہ اللہ نے حرام کیا، بھلے کر دیئے گئے ہیں ان کی نظر میں ان کے برے کام اور اللہ راستہ نہیں دیتا کافر لوگوں کو۔ (ترجمہ شیخ الہند مع تفسیر عثمانی: ۱ ؍۵۵۲، ۵۵۳)مذکورہ حدیث کے آخری جملے ''ولا صفر'' میں اسی رسم "نسی" کی نفی مقصود ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ''لا صفر'' سے ماہ صفر کے منحوس ہونے کے تصور کی نفی کی ہے۔ دور جاہلیت میں یہ تصور عام تھا کہ ماہِ صفر ایک منحوس اور بے برکت مہینہ ہے۔ (لطائف المعارف: صفحہ/ ۱۱۵،) مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)کتاب ''بارہ مہینوں کے فضائل واحکام'' میں ہے:
آج کل بھی بہت جگہ ''صفر'' کو منحوس سمجھتے ہیں، یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور حدیث شریف کے صریح خلاف ہے اور اسکی نحوست سے محفوظ رہنے کے لیے تیرہویں تاریخ کو گھونگھنیاں تقسیم ہوتی ہیں، اس کا بناء الفاسد علی الفاسد ہونا ظاہر ہی ہے، اور اگر کسی کو نحوست کا خیال نہ ہو، تب بھی گھونگھنیاں پکانا مباح میں التزام اور پابندی کی وجہ سے بدعت اور گمراہی تو ہے۔ (صفحہ/ ۱۷)
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو بد عقیدگی اور اس کے نتائج بد سے محفوظ فرمائے۔ آمین!