اسلامی سال کا دوسرا مہینہ صفر المظفر ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس کو منحوس خیال کرتے تھے؛ چناں چہ آپ علیہ السلام نے اور بہت سے باطل عقائد و نظریات کی طرح اس کی بھی نفی فرمائی: ’’لاعدوی و لاطیرۃ و لاہامۃ و لاصفر‘‘ نہ مرض کا تعدیہ ہے (بلکہ جس طرح اولا حق تعالی کسی کو مریض بناتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرف سے مریض کردیتے ہیں، میل جول وغیرہ کی وجہ سے کوئی مرض کسی کو نہیں لگتا، یہ سب وہم ہے) نہ پرندہ اُڑا کر بدشگونی لینا کوئی چیز ہے، نہ اُلّو کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ ’’صفر‘‘ کی نحوست کوئی چیز ہے۔ (أخرجہ البخاري برقم الحدیث: ۵۷۱۷ و مسلم برقم الحدیث: ۲۲۲۰)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے بیہودہ اور باطل خیالات و نظریات کی کوئی جگہ نہیں ہے، آپ علیہ السلام اس کو اپنے پاؤں تلے روند چکے ہیں؛ لیکن بُرا ہو دشمنانِ اسلام کا کہ اُنھوں نے گڑے مُردے اُکھاڑنے کی کوشش کی اور ماہِ صفر سے متعلق ایک حدیث گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلادی؛ چناں چہ بعض کتابوں میں لکھ دیا گیا: ’’من بشرني بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ‘‘۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی بشارت دے گا، میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا۔
اس روایت کو رواج دے کر ماہِ صفر میں نحوست کے عقیدہ کو اس طرح پھیلایا کہ چونکہ اس مہینے میں نحوست تھی، اس لیے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کے گزر جانے پر جنت کی خوش خبری دی۔
حالاں کہ یہ حدیث صحیح اور معتبر نہیں، بلکہ موضوع اور گھڑی ہوئی ہے؛ چناں چہ بہت سے ائمۂ حدیث نے اس حدیث کے موضوع ہونے کی صراحت کی ہے، ان میں ملا علی قاریؒ، علامہ شوکانیؒ، علامہ طاہر پٹنیؒ اور علامہ عجلونیؒ وغیرہ شامل ہیں۔
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں: من بشرني بخروج صفر، بشرتہ بالجنۃ۔ لا أصل لہ۔ (الموضوعات الکبری، حرف المیم رقم الحدیث: ۲۳۲۴) المکتب الإسلامي)
فتاوی عالمگیریہ میں جواہر الفتاوی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے: میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جو ماہِ صفر میں سفر نہیں کرتے اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلا: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جانا وغیرہ اور اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’ من بشرني الخ‘‘ سے استدلال کرتے ہیں، کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے کرنے سے روکا گیا ہے؟ تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں، جو اہل عرب (زمانۂ جاہلیت میں) کہا کرتے تھے، حالاں کہ یہ صاف جھوٹ ہے۔ و ہو کذب محض۔ کذا في جواہر الفتاوی۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الثلاثون في المتفرقات: ۵/ ۳۸۰، زکریا، دیوبند)
اور حدیث کے عدمِ ثبوت سے قطعِ نظر مطلب اس کا یہ ہے کہ چوں کہ سرکارِ دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھا اور آپ علیہ السلام اللہ رب العزت سے ملاقات کے بے حد مشتاق تھے، اس لیے صفر المظفر کے ختم ہونے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کا آپ کو انتظار تھا؛ چناں چہ اس شخص کی بشارت کا آپ نے اعلان فرمایا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی خبر لائے۔ (بارہ مہینوں کے فضائل و احکام: ۱۹)
لہذا اولاً تو یہ حدیث ثابت نہیں، ثانیاً: عدم ثبوت سے قطع نظر اس کا مطلب بھی وہ نہیں، جو بیان کیا جاتا ہے اور جس سے ماہِ صفر المظفر کی نحوست پر استدلال کیا جاتا ہے۔ اور ثالثاً: ’’لا عدوی و لا طیرۃ الخ‘‘ جیسی صحیح اور معتبر احادیث کے ہوتے ہوئے (جو چیزوں، دنوں اور مہینوں میں نحوست کے عقیدہ کی نفی کرتی ہیں) اس خانہ ساز حدیث کا کیا درجہ رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو غلط افکار و نظریات سے بچائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔