اسلام کی صداقت کے دلائل (۲)

5 minute read
0

 


۴۔ اپنے پیروکاروں کو جن اعمال کا حکم کرتے، زیادہ سے زیادہ خود بھی انھیں پر عمل پیرا ہوتے، اپنے اوپر مزید عبادات و اعمال لازم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن آپ نے امت کو تو پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اور اپنے اوپر پانچ نمازوں کے ساتھ تہجد کو بھی لازم کرلیا، امت سے کہا کہ صرف رمضان کا ر وزہ فرض ہے اور ہر روزہ کے اختتام پر افطار کرنا ضروری ہے، مسلسل بغیر کھائے پئے روزہ رکھنا درست نہیں اور خود سال کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے اور کئی کئی دن مسلسل بغیر کچھ کھائے پئے روزہ رکھتے۔ رات میں نوافل و تہجد اور دن میں روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے۔ بعض صحابۂ کرام نے اس پر عمل کرنا چاہا، تو آپ نے سختی سے منع فرمادیا۔ (نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الوصال۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۷۲۴۲) 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے یہ عرض کرنے پر کہ آپ عبادات میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جب کہ آپ بخشے بخشائے ہیں! آپ نے ارشاد فرمایا: میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (قام النبي صلی اللہ علیہ وسلم حتی تورمت قدماہ، فقیل لہ: غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر، قال: أفلا أکون عبدا شکورا۔ صحیح البخاري، رقم الحدیث: ۴۸۳۶) 

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زائد عبادتوں کا التزام نہ فرماتے، تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، لیکن پھر بھی آپ نے التزام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ کہ آپ علیہ السلام اپنے دعوی میں سچے تھے۔ (نعوذ باللہ ) کوئی ڈھونگ یا دِکھلاوا نہیں کررہے تھے۔ 

۵۔ یہود و نصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تکلیف دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، آپ کی موت تک کے خواہاں ہوئے، زہر دینے کی کوشش کی، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ اگر اہل کتاب: یہود و نصاری تم سے دین کی کوئی بات کہیں، تو نہ تو تم اس کی تصدیق کرنا نہ تکذیب۔ (چوں کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کردی اور صحیح غلط کو خلط ملط کردیا) اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ بات غلط ہو اور اس بات کا بھی کہ وہ سچی ہو، لہذا اگر تم اس کی تکذیب کروگے، تو ایک سچی بات کو جھٹلانا ہوگا، جو غلط ہے۔ اس لیے تصدیق و تکذیب سے بچو، آپ کا یہ طرز عمل بتلاتا ہے کہ آپ علیہ السلام کوئی عام آدمی نہیں تھے، بلکہ اللہ رب العزت کے فرستادہ سچے رسول تھے، آپ کو سچائی پسند تھی، خواہ وہ دشمن کی طرف سے ہی کیوں نہ آئے۔ اب جو انسان سچائی کے بارے میں اتنا حساس ہو، وہ خود جھوٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ ورنہ عام آدمی اپنے دشمنوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کی بات مت مانو، بلکہ ان کے منھ پر مار دو۔ 

۶۔ اگر آپ سچے نہ ہوتے، تو قرآن کریم (جس کے بارے میں پتہ تھا کہ وہ انقلاب برپا کرنے والی کتاب ہے اور کروڑہا انسان اس کی پیروی کرنے والے ہیں) میں اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو آگے کرتے۔ قرآن میں سورہ فاطمہ ہوتی، سورہ عائشہ ہوتی، سورۂ خدیجہ، سورۂ ابوبکر، سورۂ عمر ہوتی۔ لیکن ہے کیا؟ سورۂ مریم، سورۂ نوح، سورۂ یوسف، سورۂ ہود، سورۂ بنی اسرائیل۔ خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو پورے قرآن میں پانچ مرتبہ آیا ہے،چار جگہ محمد اور ایک جگہ احمد، جب کہ حضرت موسی علیہ السلام کا نام ہر دوسرے تیسرے صفحہ پر آجاتا ہے۔ 

اگر آدمی خود سے کوئی کتاب لکھے گا، تو وہ چاہے گا کہ اس میں میری تعریف ہو، میں ہی میں نظر آؤں، ہر جگہ میں ہی دِکھوں۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ لیکن ایسا نہ ہوا، پتہ چلا کہ یہ آپ علیہ السلام کے ہاتھوں لکھا ہوا کلام نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کا نازل کردہ ہے۔ 

۷۔ اگر آپ جھوٹے ہوتے، تو ابولہب بہت آسانی کے ساتھ آپ کو جھوٹا ثابت کردیتا، کیسے؟ اس طرح کہ قرآن میں سورہ  نازل ہوئی: ’’تبت یدا ابی لہب … سیصلی نارا ذات لہب۔‘‘ ’’سیصلی‘‘ کے لفظ سے اللہ نے یہ ثابت کیا کہ ابولہب کافر ہی مرے گا؛ کیوں کہ وہ جہنم میں جائے گا۔ ابولہب آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یہ ظاہر کرتا کہ چلو میں نے خدا کو ایک مان لیا، محمد کو نبی مان لیا۔ دل سے نہ مانتا، صرف دِکھاوا کرتا، تو بھی وہ بڑی آسانی سے آپ کو جھوٹا ثابت کردیتا۔ لوگ کہتے کہ ان پر جو کلام نازل ہوا، اس میں تو یہ ہے کہ ابولہب جہنم میں جائے گا، حالاں کہ وہ ایمان لے آیا، تو لوگوں کی نگاہ میں آپ جھوٹے ثابت ہوجاتے۔ لیکن وہ یہ دِکھاوا کرکے بھی آپ کوجھوٹا ثابت نہ کر سکا، پتہ چلا کہ یہ قادر مطلق کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں۔ 

۸۔ قرآن کریم میں یہودیوں کو خطاب کرکے فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ کے محبوب ہو اور تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ تم جنت میں جاؤگے توتم موت کی تمنا کرکے دکھاؤ۔ یہ تمھیں چیلنج ہے۔ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ تم موت کو اختیار کرلو، مرجاؤ، بلکہ صرف یہ کہا کہ موت کی تمنا کرلو، یعنی صرف زبان سے یہ کہہ دو کہ ہاں ہم موت کی تمنا کرتے ہیں، ہم مرنا چاہتے ہیں۔ تم تمنا بھی نہیں کرسکتے اور وہ ایسا نہ کرسکے، کوئی بھی ایسی تاریخی دستاویز موجود نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہو کہ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موت کی تمنا کی ہو۔ 

تو وہ موت کی تمنا تک نہیں کرسکے، ورنہ بہت آسانی کے ساتھ آپ کو جھٹلا دیتے۔ پتہ چلا کہ یہ آپ کا لکھا ہوا کلام نہیں ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !