ہجرتِ نبوی کا پیغام

3 minute read
0


نئے ہجری سال کی آمد آمد ہے ، اللہ رب العزت ہمیں اس نئے سال میں نیکی و بھلائی کی توفیق بخشے، ہمارے گذشہ گناہوں کو معاف فرمائے اورآئندہ ہمیں نیک عمل کی توفیق مرحمت فرمائے( آمین) اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’ جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کئے، ان کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد مسلسل۱۳؍ سال تک مکہ مکرمہ میں انتہائی دردمندی، دلسوزی اورغم خواری کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور حقیقی رب کی طرف بلاتے رہے، سیکڑوں آلام و مصائب اورطرح طرح کی تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی اپنے اس عظیم مشن کو جاری رکھا، لیکن جب اکثر اہل مکہ حق بات سے اندھے اوربہرے بن کر مخالفت ہی پر آمادہ رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش رچی، تو اللہ رب العزت نے آپ کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا؛چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے جاں نثار صحابہ نے اپنے وطن مکہ مکرمہ کو چھوڑ کرمدینہ منورہ ہجرت کی اورقیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ دین و ایمان اور عقیدے کی حفاظت کی خاطربڑی سے بڑی قربانی پیش کی جاسکتی ہے، اس کے لیے اعزہ و اقارب، خاندان، وطن اورجان ومال ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت اپنے زمانی ومکانی پس منظر کے ساتھ تکمیل کو پہنچی؛چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’لا ہجرۃ بعد الفتح‘‘(متفق علیہ)فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے؛کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتح مکہ سے پہلے ہجرت دین کی نصرت و مدد کے لیے ہوا کرتی تھی،لہٰذا جب مکہ فتح ہوگیا اور اللہ نے اسلام کو غالب کردیا، تو ہجرت کی فرضیت ساقط ہوگئی،آج کے دور میں جو شخص ہجرت کی فضیلت اوراس کا ثواب حاصل کرنا چاہے، اسے چاہئے کہ کثرت سے عبادت کرے؛کیوں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’ العبادۃ في الہرج کہجرۃ إليّ‘‘(مسلم، رقم الحدیث:۲۹۴۸) فتنوں کے وقت میں عبادت کرنا ایسا ہے ، جیسے میری طرف ہجرت کرنا۔

اورفتنوں کے وقت میں عبادت کی اس فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عام طور پر لوگ عبادت سے غافل ہوکر دیگر لغویات میں مشغول ہوں گے، لہٰذا ایسے شخص کے لیے خوش خبری ہے، جو اپنے آپ کو اپنے رب کی عبادت میں مشغول رکھے، گناہوں سے بچے اورغلطیوں کو چھوڑدے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إن المہاجر من ہجر ما نہی اللہ عنہ‘‘ (البخاری:۶۴۸۴) مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کو ناراض کرنے والی تمام چیزوں کو چھوڑ دیں؛کیونکہ یہی افضل ہجرت ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، اے اللہ کے رسول! کون سی ہجرت افضل ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ أن تہجر ماکرہ ربک عزوجل‘‘ سب سے افضل ہجرت یہ ہے کہ تم ہر اس کام کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو نا پسند ہے۔( النسائی:۴۱۶۵)


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !