اسلام کی صداقت کے دلائل (۱)

4 minute read
0


 اسلام ہی سچا دین ہے، جو دامنِ اسلام سے وابستہ ہوگا، نجات پائے گا اور جو اس سے منھ موڑے گا، ہمیشہ کی ناکامی اور نامرادی اس کا مقدر ہوگی۔ 

یہ کوئی دیومالائی قصے، کہانیوں کا دین نہیں ہے، بلکہ حقائق پر مشتمل، عقل انسانی کو اپیل کرنے، ذہنوں میں اجالا  کرنے اور طبیعتوں کو مطمئن کرنے والا دین ہے۔ اگر انسان سنجیدگی سے اسلامی تعلیمات اور اس کے حقائق و دلائل میں غور کرے، تو وہ اسلام کی صداقت اور اس کے سچا دین ہونے سے انکار نہیں کرسکتا۔ ذیل میں کچھ عام فہم دلائل پیش کیے جاتے ہیں، جن سے اسلام کی سچائی بالکل عیاں ہوجاتی ہے: 

تمہید: اسلام کی حقانیت اور صداقت موقوف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی صداقت اور سچائی پر، لہذا ذیل میں اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت پر چند دلائل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بت پرستی،بد عقیدگی، بے حیائی، بے مروتی، چوری چکاری، رہ زنی، لوٹ مار، قمار بازی، زنا کاری اور ظلم و زیادتی پر مشتمل برسوں کے بنے ہوئے سانچے کو توڑ کر حیا، عفت و پاکدامنی، عدل و انصاف اور اخلاص و للہیت، توحید و رسالت کا اقرار کے سانچے ڈھالنا انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ سماج کے عقیدے اور روایات کا دھارا جس سمت بہ رہا ہو، اس طرف چلنا تو بہت آسان ہے، لیکن اس بہاؤ پر بند باندھنا اور معاشرے کے دھارے کو موڑ کر سچائی، اچھائی، امانت داری، صلہ رحمی، خدا پرستی پر چلنا اور لوگوں کو چلانا انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ 

(نعوذ باللہ) اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی جھوٹے ہوتے اور محض اپنی سیادت و قیادت جمانے اور لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے یہ گیم کھیل رہے ہوتے، تو سماج کے بہتے ہوئے دھارے کے رخ پر چل کر بہت جلد یہ مقصد حاصل کرسکتے تھے، نہ کسی سے دشمنی مول لینے کی ضرورت تھی، نہ ہزاروں قسم کی مشقتیں برداشت کرنے کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی اور دیگر برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور خدا پرستی اور اچھائیوں کی دعوت دی، جس سے سارا مکہ آپ کے خلاف ہوگیا اور آپ کو اور آپ کے گنے چنے مجبور و بے سہارا ساتھیوں کو مشقِ ستم بنالیا اور اسلام کی سچی راہ سے ہٹانے کے لیے نت نئے حربے آزمانے لگا۔ 

۲۔ زندگی میں ڈسپلن لانا اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں ہے، انسان کو اپنی من چاہی چھوڑ کر خدا کے حکموں کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) سچے نہ ہوتے اور کوئی گیم کھیل رہے ہوتے، تو اپنا حلقۂ اثر بڑھانے اور متبعین کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو آسان چیزیں کرنے کو کہتے، نہ کہ مشکل۔ حالاں کہ مسلمانوں کو جن اعمال کا مکلف بنایا گیا، وہ آسان نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا، رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھنا، صاحب استطاعت کے لیے زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا، صاحب نصاب کو زکاۃ نکالنا، یہ سارے مشقت بھرے کام ہیں، اگر آپ سچے نہ ہوتے، تو اپنا حلقہ بڑھانے کے لیے اپنے لوگوں کو آسان کام بتاتے، مثلا: جس کا جی چاہے نماز پڑھے، جس کا نہ چاہے، نہ پڑھے۔ روزہ، نماز، زکاۃ ، حج سب کے متعلق اسی قسم کی آزادی حاصل ہوتی کہ جس کا جی چاہے کرے ، جس کا جی نہ چاہے نہ کرے۔ شادیاں چار نہیں سولہ اور بیس تک کی جاسکتی ہے۔ شراب و کباب، رقص و موسیقی پر کوئی ایسی پابندی نہ ہوتی؛ تاکہ حلقہ بڑھے ۔ حاصل یہ کہ اگر خود اپنی طرف سے کروارہے ہوتے، تو آسان بتاتے۔ لیکن چوں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے سچے رسول تھے (اور ہیں) اس لیے آپ انھیں سچی اور اچھی باتوں کی تعلیم دیتے تھے، جن کا آپ کو حکم ہوتا تھا۔ خواہ وہ انسانی مزاج خاص کر عربوں کے آزادانہ مزاج پر کتنے ہی گراں کیوں نہ ہوں۔ 

یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

۳۔ جب آپ علیہ السلام نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور لوگوں کو ایک خدا کی اطاعت و بندگی کی طرف بلانا شروع کیا، تو کفار مکہ نے آپ کو اس مشن سے روکنے کے لیے مختلف حربے آزمائے، طرح طرح کی دھمکیاں دیں، لیکن جب آپ پھر بھی جمے رہے، تولالچ دی گئی اور آپ کو پورے جزیرۃ العرب کی سیادت و قیادت پیش کی گئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے ان کی اس پیشکش کو رد کردیا کہ اگر یہ لوگ مجھے چاند اور سورج بھی لا کر دے دیں، تب بھی میں اپنے اس مشن سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔ تو اگر آپ کو لیڈر شپ ہی چاہئے تھی، تو وہ تو مفت مل رہی تھی، پھر سختیاں جھیلنے، اپنے ساتھیوں کو ہلکان کروانے، شعب ابی طالب میں تین سال کس مپرسی کی زندگی گزارنے، طائف میں لہولہان ہونے، مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہونے، پھر متعدد جنگیں کرنے، پیٹ پر پتھر باندھنے، جنگ میں زخمی ہونے (وغیرہ وغیرہ) کی کیا ضرورت تھی؟ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لیڈر شپ کے خواہاں نہیں تھے، آپ کا مقصد اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانا اور لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکی سے نکال کر اسلام کی روشنی سے روشناس کرانا تھا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !