’’الارتجال‘‘ نئے نئے معانی و مفاہیم کے لیے جدید الفاظ کی تخلیق ، نت نئی دریافتوں کے لیے یہ عمل ناگزیر ہے، جیسے ٹینک، بم و بارود، کلاشنکوف، میزائل، ہوائی جہاز، ایئر پورٹ اور َرن وے وغیرہ۔’’القلب‘‘جسے ’’اشتقاق کبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ ہے کہ بغیر ترتیب کے دو کلمات کے اندر لفظ و معنی میں مناسبت ہو۔’’ابدال‘‘ جسے ’’اشتفاق اکبر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو لفظوں کے درمیان معنی و مخرج میں مناسبت ہو۔ عرب محققین نے ان تمام امور کو برت کر حالات و واقعات کے مطابق بکثرت نئے الفاظ وضع کیے ہیں۔
لیکن موجودہ دور مغربی غلامی کا دور ہے اور کائنات میں خدا تعالیٰ کے فطری قانون کے بموجب مغربی تہذیب کو اقبال و اقتدار حاصل ہے۔ قانون خداوندی ہے: ’’و تلک الأیام نداولہا بین الناس‘‘ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کوادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ چناں چہ عربوں نے اپنے بچوں کو انگلش، فرنچ یا جرمن وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے لیے عرب ممالک میں قائم مذکورہ زبانوں کی تعلیم کے لیے مخصوص اداروں میں ڈال دیا، اس پر غضب یہ کیا کہ وہاں داخل کرنے سے پہلے انہیں اپنی مادری عربی زبان پر مہارت و عبور حاصل کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ اسی وجہ سے عربوں کی نئی نسل غیر ملکی زبانیں تو نہایت عمدگی سے بولتی ہے۔ جب کہ اپنی مادری عربی زبان ایسی ٹوٹی پھوٹی بولتی ہے،کہ اتنی پست عربی ایک ایسا غیر عرب مسلمان بھی نہیں بولے گا، جس نے عربی سیکھی ہو اورمحنت و اکتساب کے ذریعہ عربی تکلم میں مہارت حاصل کی ہو۔
ہم عربی اخبارات و رسائل میں عرب صحافیوں کے کالم پڑھتے ہیں جن میں وہ عربی زبان کے خود اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کے درمیان ضائع ہونے کا مرثیہ لکھتے ہیں، جہاں نئی نسل فصیح عربی زبان میں بات کرنے سے قاصر ہے، جب کہ انگریزی اور دیگر زبانیں بڑی فصاحت اور بلاغت سے بولتی ہے۔ آج عرب دنیا میں غیر ملکی اسکولوں کا سیلاب آ یا ہوا ہے، جن میں جدید علوم کے علاوہ غیر ملکی زبانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض عرب ممالک میں غیر ملکی اسکولوں کی تعداد عرب اسکولوں سے بھی زیادہ ہوگئی اور انھیں وہ امتیازات اور مراعات حاصل ہیں، جو عرب اسکولوں کو حاصل نہیں۔ اور ان غیر ملکی اسکولوں کے انچارج اور انتظامیہ بشمول سفارت خانے اپنی ثقافتوں اور زبانوں کو فروغ دینے کے لیے بے پناہ جوش و جذبہ رکھتے ہیں، ایسا جوش و جذبہ جو عربوں میں ناپید ہے،عرب تو اس دھوکے میں آگئے کہ غیر ملکی زبانیں آج کل عربی زبان سے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔ اور یہ ’’خیال باطل‘‘ ان کے ذہنوں میں راسخ ہوگیا کہ غیر ملکی زبانیں زندہ زبانیں ہیں، وہ مادی کامیابی اور خوشگوار زندگی کی ضامن ہیں، لہذا دوسروں کی طرح ان کے منھ سے بھی رال ٹپکنے لگی، حالاں کہ وہ (دوسرے لوگ) آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے نزدیک دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے، لہذا دنیا کی فوری کامیابی ان کا مطمح نظر ہے۔
البتہ وہ عرب جن کے عقائد مضبوط ہیں، جو پیغمبر خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جنت، جہنم اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں، انھوں نے عربی زبان کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے، وہ اسے ہلکے میں نہیں لیتے، بلکہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ اسلام کی زبان ہے۔ قرآن اور اس کے شارح کی زبان ہے، شریعت کی وہ زبان جس پر دین کا مکمل فہم منحصر ہے، وہ زبان جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گفتگو کی اور زندگی بھر تمام معاملات اسی میں طے پائے، اور اسی زبان میں اپنے رب کی امانت کو انسانوں اور جنوں تک پہنچایا، لہذا یہ ان عربوں کے نزدیک دین اور دنیا کی زبان ہے، اسلامی زبان کے ساتھ ان کی قومی زبان بھی ہے۔ انہیں اس کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا اور نہ ہی وہ اس کے لیے ادھر ادھر دیکھتے ہیں ان کا برحق خیال ہے کہ اس دنیا کی کوئی زبان وسعت، جامعیت،ا فہام، قطعیت، مہارت، درستگی اور بھرپور، مدلل، شاندار، خوبصورت اور پُر اثر ہونے کے اعتبار سے اس کے ہم پلہ نہیں، دین و دنیا اور جدید و قدیم کسی بھی مقصد کے اظہار کے لیے بھرپور، کسی بھی معنی اور حقیقت کو ایک سے زائد الفاظ ، اسلوب اور سانچے میں بیان کرنے کی قوت اور ہر لفظ میں ایک سے زائد معنی اور دلالت و اشارہ رکھنے کی جو صلاحیت عربی زبان میں ہے، وہ دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کو حاصل نہیں۔
فہمِ شریعت عربی زبان کے فہم پر موقوف ہے، بغیر عربی زبان کو سمجھے شریعت پر عمل ممکن نہیں اور شریعت پر عمل کیے بغیر جنت کا راستہ ہموار نہیں ہو گا ، لہذا عربی زبان عربوں اور شریعت اسلامیہ کی اتباع کرنے والے تمام عالم کے مسلمانوں کے لیے جنت کا راستہ ہے اور تمام مسلمانوں کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، جس سے کسی مسلمان کو مفر نہیں، عربی زبان ان کی فطری ضرورت ہے اور خواہی نا خواہی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔
ماضی قریب اور بعید میں عرب اور غیر عرب تمام مسلمانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا،لہذا انھوں نے ہر پہلو سے عربی زبان کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقت کردیں،اس اذعان و یقین کے ساتھ کہ عربی زبان کی خدمت دین، کتاب اللہ اور سنت و شریعت کی خدمت ہے۔ اور یہ حب خداوندی اور عشق محمدی کا تقاضا ہے۔
عربوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ زبان عربی کا ضیاع ان کے دین و دنیا کا ضیاع ہے،لہذا عربی زبان کی بقا کی کوشش تمام مسلمانوں خاص کر تمام عربوں کی ذمہ داری ہے۔ اختتام