اسلام کی صداقت کے دلائل (۳)

5 minute read
0



 ۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے جن کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی تھی اور جن کا نام ابراہیم تھا، چند مہینے کے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا، جس دن انتقال ہوا اس دن سورج گرہن لگ گیا، لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ سورج گرہن اس لیے لگا؛ کیوں کہ آج آپ کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہوا، اس لیے آج سورج بھی غم زدہ ہے اور آپ کے غم میں شریک ہے۔ 

اگر آپ جھوٹے ہوتے، تو کہہ دیتے کہ ہاں! سورج گہن اسی وجہ سے ہوا ہے، یا کم از کم خاموش رہتے اور اس چیز کو کیش کراتے کہ آپ کے بیٹے کے انتقال پر سورج گہن تک لگ گیا، لیکن آپ نے لوگوں کے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کے مرنے جینے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ 

۱۰۔ آپ کی زندگی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگایا گیا۔ چوں کہ آپ کو حقیقت کا علم نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک خاموشی اختیار کیے رکھی ، یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کے سلسلے میں قرآن کریم کی دس آیتیں نازل ہوئیں۔ 

اگر قرآن آپ کا کلام ہوتا اور آپ ہی قرآن کو لکھ رہے ہوتے، تو فورا کے فوراچند آیتیں لکھ کر اس کی تردید کردیتے، ایک مہینے تک انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب کہ اس عرصے میں لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں، بہت سی باتیں بنائیں، منافقین ایک سے ایک شوشے چھوڑتے رہے، آپ کو تکلیف ہورہی تھی کہ لوگ ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں۔

کوئی بھی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے بارے میں اس طرح کی باتیں کریں، ایک مہینہ نہیں، چند منٹ کے لیے بھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر قرآن آپ ہی بنا کر لکھ رہے ہوتے، تو اسی لمحے دس آیتیں لکھ دیتے اور قصہ ختم تھا، اس کے لیے انتہائی کرب و الم میں ایک مہینے تک انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ 

۱۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بتلانے سے مستقبل میں پیش آنے والے بہت سے واقعات و حالات کی اطلاع پہلے ہی دے دی اور وہ واقعات انھیں کیفیات کے ساتھ پیش آئے۔ کچھ آپ کی زندگی میں، کچھ آپ کے پردہ فرما جانے کے بعد اور کچھ آئندہ پیش آئیں گے۔ 

حدیث ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک حجاز سے ایک آگ نمودار نہ ہو جو بصری میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔ (صحیح بخاری:۷۱۱۸)

یہ واقعہ سن ۶۵۴ہجری کو ایسے ہی رونما ہو چکا ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا تھا، مؤرخین نے اس چیز کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے جیسے کہ ابو شامہ مقدسی رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے ہیں جن کی زندگی میں یہ واقعہ رونما ہوا تھا، انھوں نے اپنی کتاب: "ذیل الروضتین" میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے (البدایۃ والنہایۃ:۱۳؍۲۱۹) میں لکھا ہے کہ پھر اس کے بعد چھ سو چوّن  کا سال شروع ہوا اور اسی سال سر زمینِ حجاز میں ایک آگ نمودار ہوئی جس کی وجہ سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو گئیں، بالکل اسی انداز سے جیسے بخاری و مسلم کی متفقہ روایت میں اس کی پیشین گوئی کی گئی تھی، اس آگ کے بارے میں شیخ  الامام علامہ حافظ شہاب الدین ابو شامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ذیل الروضتین اور اس کی شرح میں لکھا ہے، اس کی تفاصیل انہوں نے حجاز سے دمشق آنے والے بہت سے خطوط کی روشنی میں لکھی ہیں، ان خطوط میں اس آگ کو مشاہداتی طور پر دیکھنے والوں نے اس کی مکمل تفاصیل بھی ذکر کی ہیں کہ یہ آگ کیسے لگی اور اس کے علاوہ بھی دیگر متعلقہ امور  ان میں موجود تھے۔

ابو شامہ نے جو کچھ وہاں ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

دمشق میں مدینہ نبویہ زادہا اللہ شرفا و کرامۃسے خطوط موصول ہو رہے ہیں کہ ان کے ہاں ۵؍جمادی الثانیہ کو اس سال آگ لگی ہے ، یہ خط ۵؍رجب کو لکھا گیا تھا، جو کہ ہم تک ۱۰؍شعبان کو پہنچا، پھر کہتے ہیں:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، سن پانچ سو چوّن ہجری کو دمشق میں مدینہ سے شعبان کے اوائل میں ایک خط موصول ہوا، اس خط میں مدینہ منورہ میں بپا ہونے والے ایک بہت ہی عظیم معاملے کی تفصیلات ہیں جس کے بارے میں روایت صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک سرزمینِ حجاز سے ایک آگ نہ نکلے جس کی روشنی میں بصری کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔ تو اس پر مجھے ایسے شخص نے بتلایا جسے میں معتمد سمجھتا ہوں اور اس نے خود اس روشنی کو دیکھا بھی ہے کہ اس تک یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے اس کی روشنی میں تیماء نامی جگہ پر کتابیں لکھیں ہیں،پھر کہتے ہیں کہ ان راتوں میں ہمارے ہاں ایسا سماں تھا کہ گویا ہر گھر میں چراغاں ہے (یعنی روشنی ہے)اور اتنی بڑی آگ ہونے کے با وجود اس کی کوئی تپش یا گرمی نہیں تھی، یہ آگ اللہ تعالی کی بہت بڑی نشانی تھی‘‘انتہی

یہ چند دلائل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعویٔ نبوت میں بالکل سچے تھے ، قرآن آپ کا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے، جو ہر چھوٹی بڑی چیز کو جاننے والا ہے، اور اسلام ایک سچا مذہب ہے۔ فاعتبروا یا اولی الالباب 

نوٹ: اس مضمون کے بہت سے اجزاء مفتی یاسر ندیم قاسمیؔ دامت برکاتہم کی ایک ویڈیو سے ماخوذ ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !