زبانِ عربی: اپنوں کی بے اعتنائی کی شکار (۱)

6 minute read
0



کچھ دن پہلے میں ایک عرب صحافی کا مضمون پڑھ رہا تھا، جس میں عربی زبان کو درپیش بہت سے خطرات اور چیلنجوں کا تذکرہ تھا، مثلا اہل زبان کی طرف سے عربی کے تئیں حد درجہ غفلت، دشمنوں کی طرف سے خوفناک خطرات، اور استعماری ذہنیت اور بدبودار عصبیت سے جنم لینے والی نہایت باریک بینی سے تیار کی ہوئی، مضبوط اور مکرسے پُر سازشوں کا تذکرہ تھا۔ چنانچہ میں بھی کالم نگار کے اس تکلیف دہ غم، مہلک رنج و الم اور جان لیوا حسرت و افسوس میں شریک ہوگیا، جس کا انھوں نے اہل زبان کے درمیان عربی زبان و ادب کے ضیاع کے تعلق سے اپنے مضمون میں تذکرہ کیا ہے۔

کالم نگار نے لکھا ہے: 

’’اگر ہمیں اپنی زبان کی قدر و قیمت اور ہماری زندگیوں پر پڑنے والے اس کے عظیم اثرات کا ادراک نہ ہو، توکاش ہم یہ دیکھیں کہ قومیں اپنی زبانوں کے ساتھ عزت و احترام، شاندار قدردانی، نفاذ اور ترویج و ترقی کے حوالے سے کیا برتاؤ کرتی ہیں۔اس حوالے سے ان کا برتاؤ ایسا ہے کہ ہم اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، وہ اپنی زبان کو غیر ملکی زبانوں کی دخل اندازی سے بچاتی ہیں اوراسے اپنی زبان کے لیے تباہ کن حملہ آور فوجوں سے زیادہ خطرناک سمجھتی ہیں۔‘‘

کالم نگار نے مزید لکھا:

’’میں جرمنی میں پڑھائی کے لیے نو سال تھا، اس دوران میں دنیا کی ساری زبانوں کو بھول گیا، گویا جرمن زبان کے علاوہ دنیا میں کچھ بھی نہیں، اس کا زبردست نظم و انتظام، اپنے بچوں کو بھرپور طریقے سے سکھانے کی لگن، نیز دیگر غیر ملکی زبانوں سے اس کا تحفظ حیرت انگیز تھا۔‘‘

کالم نگار نے فرانس کے سابق حکمران چارلس ڈی گال کا قول نقل کیا: ’’ہماری زبان نے ہمارے لیے وہ کیا جو ہماری فوجوں نے نہیں کیا، ہماری زبان نے لوگوں کو ہمارا پیروکار اور مطیع و فرماں بردار بنایا، جب کہ ہماری فوجوں نے دیگر ممالک پر قبضہ کیا، پھر وہ انھیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے اور ہمارے تئیں لوگوں میں نفرت چھوڑ گئے۔‘‘

انھوں نے مزید لکھا: 

’’ لوگ ہمارے افکار کی خستہ حالی کے سبب بے گانہ اور متنفر ہیں؛ کیوں کہ وہ زبان کے تعلق سے ہماری بے غیرتی کو دیکھتے ہیں، تمام قومیں اپنی زبانوں کے تعلق سے جس طرح کی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتی ہیں، اس طرح کا مظاہرہ کسی اور چیز کے تعلق سے نہیں کرتیں، تو کیا ہمیں قرآن و سنت کی زبان پر غیرت و حمیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے؟جو ہمارے دین و دنیا کی زبان ہے، ہماری شناخت اور پتہ ہے، ہمارے فخر و احترام کا سرچشمہ ہے، ہمارے اتحاد کی باگ ڈور ہے، ہمارے خیالات کو یکجا کرنے والی، ہمارے امن اور رازوں کی محافظ ہے اور ہمارے علوم اورہماری تخلیقی صلاحیتوں کا آلہ ہے۔‘‘

یہ پڑھ کر مجھے بے ساختہ وہ بات یاد آگئی ،جس کا مشاہدہ میں نے بعض عرب ممالک کے حالیہ دورے (۵تا ۲۱/نومبر۲۰۱۵ئ) کے دوران کیا۔ مجھے کالم نگار کی بات سے حرف بہ حرف اتفاق ہے،صورت حال یہ ہے کہ جب انسان ان ممالک میں دانستہ طور پر عربی زبان پر دیگر غیر ملکی خاص کر انگریزی زبان کا غلبہ دیکھتا ہے، تو خون کے آنسو روتا ہے، خاص طور پر دفاتر، اسکولوں، کمپنیوں، دکانوں اورپبلک مقامات پر یہ صورت حال عام ہے، وہاں جاکر یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ کسی عربی ملک میں ہے۔ اور جب عربوں کی طرف سے اس شرمناک صورتحال کا موازنہ اس غیرت و حمیت سے کیا جائے جو دیگر قوموں کی اپنی زبان کے تئیں ہے، تو ناقابل بیان دکھ، تکلیف اور افسوس ہوتا ہے۔

کچھ بھائیوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے عربی زبان پر عبور حاصل کیااور فصیح عربی زبان لکھنے اور بولنے میں مہارت پیدا کی، یہ سوچ کر کہ جب وہ کسی بھی شعبے میں کام کرنے کے لیے عرب ممالک جائیں گے، تو گرم جوشی اور عزت سے ان کا استقبال ہوگا۔ لیکن وہاں (عرب ممالک میں) ملازمت حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اہل عرب عمدہ انگریزی (اور کچھ دیگر زبانیں) بولنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور ان کی ہیبت اور وقار محسوس کرتے ہیں۔ اور عربی زبان بولنے اور برتنے والوں کو عمدہ انگریزی داں سے کم تر سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ انھیں ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کا سامان انہیں واپس کرتا ہے، وہ بزبان حال کہتے ہیں: ’’ہذہ بضاعتنا ردت إلینا‘‘ یہ ہمارا سامان ہے جو ہمیں واپس کر دیا گیا ہے۔

 جہاں تک عربی زبان کے مذہبی پہلو کا تعلق ہے، تو یہ آج تمام عربوں سے غائب ہے۔ مادیت پرستی کا ان پر تسلط ہے، تکاثر و تنافس کے کلچر نے انھیں زندگی کو پرتعیش اور پرلطف بنانے والی چیزوں میں ملوث کردیا اور دین اور متعلقات دین کی قدران کے دلوں سے رخصت ہوگئی۔ 

اسی وجہ سے ہم فکری اور ثقافتی یلغار کے شکار عربوں کی جانب سے عربی زبان کے تئیں شدید لاپرواہی کے تعلق سے عرب قلم کاروں کی چیخ و پکار اور حسرت و افسوس کی صدائیں مسلسل سنتے رہتے ہیں، اس فکری یلغار کے نتیجے میں انہوں نے غیر ملکی زبانوں خاص طور پر انگریزی زبان کو اپنانا شروع کر دیا ہے،کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ وہ موجودہ دور کی زبانیں ہیں، وہ جدید سائنس، دریافتوں، ٹیکنالوجی اور عالمی مواصلات کی زبانیں ہیں، وہ زبانیں زندگی اور تیز رفتار عالمی قافلے کے قدم بقدم چلتی ہیں، جب کہ عربی زبان کا (ان کے خیال کے مطابق) اس حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے۔ کیونکہ عربی زبان ارتقاء پذیر زندگی اور نت نئی ضروریات کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی ہے۔ حالاں کہ ان کا یہ خیال عربی زبان کی بے پناہ خدمات سے ان کی ناواقفیت کے سبب سے ہے۔انھیں نہیں پتہ کہ عربی زبان کے علماء، اسکالرز اور اس کی خدمت کے لیے زندگی وقف کردینے والوں نے عربی زبان کو ترقی دینے اور اسے زندگی کے نت نئے حقائق کا احاطہ کرنے اور زندگی کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے بے پناہ کوششیں کی ہیں۔ کبھی انفرادی طور پر اور کبھی عربی زبان کی اکیڈمیوں اور انجمنوں کے پلیٹ فارم سے۔ آج بھی یہ کام علماء سلف کے طرز پر جاری ہے، جنھوں نے اپنے اپنے دور کی ثقافتی معلومات حاصل کیں، انھیں پرکھا اور انھیں عربی زبان سے ہم آہنگ کیا، یہ پیش رفت عباسی دور سے شروع ہو ئی، جس میں عرب و عجم کے درمیان ٹکراؤ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کے درمیان لین دین کا معاملہ رہا، چنانچہ عرب علماء/ اسکالرز ان جدید چیزوں کے نام اور لسانی متبادل تیار کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، جن کے نام پہلے سے عربی زبان میں موجود نہیں تھے، کیونکہ پہلے اہل عرب کا ان سے سابقہ ہی نہیں پڑا تھا، وہ اہل عجم سے الگ تھلگ تھے۔

عرب علماء ، انشا پردازوں اور تعلیم یافتہ حضرات کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ عربی زبان کسی بھی ملک اور کسی بھی زمانے کی نت نئی ضروریات کی لسانی تکمیل کے حوالے سے تنگ دامن ہے، کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ عربی زبان ’’اشتقاق‘‘،’’ نحت‘‘ ’’تعریب‘‘ و ’’ارتجال‘‘ اور’’ قلب‘‘ و’’ ابدال‘‘ کی راہ سے تمام لسانی ضروریات کی تکمیل کی اہل ہے۔

’’نحت‘‘ یہ ہے کہ ہم دو یا زیادہ الفاظ کو دیکھیں اور ان الفاظ کے حروف کے مجموعے سے ایک ایسا لفظ نکالیں، جو تمام الفاظ کی نمائندگی کرسکے۔ ’’اشتقاق‘‘: اس کا مطلب ہے ایک لفظ سے دوسرا لفظ نکالنا جب کہ دونوں میں معنوی مناسبت اور لفظی قربت ہو۔ ’’تعریب‘‘ کسی عجمی لفظ کو عربی میں تبدیل کرنا۔ عربوں نے اس حوالے سے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، چنانچہ انھوں نے بہت سے حبشی، یونانی، فارسی، اور ہندی الفاظ کو عربی میں تبدیل کیا ہے۔ …… …جاری ہے۔

٭ ٭ ٭


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !