اُکتاہٹ

5 minute read
0

 انٹرنیٹ کے اس دور میں جب ایک کِلک پر دنیائے جالیات کی نیرنگیاں آ موجود ہوتی ہیں اور آڈیو، ویڈیو، ٹیکسٹ اور پی ڈی ایف ہر فارمیٹ میں ہر موضوع سے متعلق معلومات کا سمندر چکاچوند کرنے اور نظر کو بھانے والے پیش منظر و پس منظر کے ساتھ دستیاب ہوتا ہے، گویا صارف (Internet User) کے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ ہوتا ہے، جس کا جن صارف کی حسبِ منشا اسے دنیا جہان کی سیر کراتا پھرتا ہے۔ 

اِدھر سوشل میڈیا پر آنے والے اہم اور غیر اہم بلکہ بسا اوقات نامعقول پیغامات کا ایک سیلاب ہوتا ہے، جس سے نظریں چُرا کر بچ نکلنا آسان نہیں ہوتا، نتیجۃً اچھا خاصا وقت ان کی ’’دیکھ ریکھ‘‘ میں بھی صرف ہوتا ہے، یہ اس وقت ہے جب ’’جذبۂ تنقید و تفتیش‘‘ انگڑائی نہ لے، ورنہ کسی ’’پوسٹ‘‘ کی بخیا اُدھیڑنے اور بال کی کھال نکالنے اور پھر جواب اور جواب الجواب کے دراز سے دراز تر ہوتے سلسلے میں وقت کی ’’ریزور(Reserve) کُمک‘‘ بھی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اور یوں مفید اور ضروری کاموں کے لیے (User) صارف وقت کی کمی کے حوالے سے شکوہ کناں ہوتا ہے۔ 

ان حالات میں کتاب پڑھنے کی فرصت کس کو ہے! 

اگر بہت شوق ہوا اور ذوقِ مطالعہ نے انگڑائی لی، تو انٹرنیٹ پر کسی لائبریری میں گھس کر دو چار کتابیں ڈاؤنلوڈ کرکے ان کے سرِ ورق اور آغاز و اختتام دیکھ کر مستقبل کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہیں کہ فرصت سے مطالعہ کریں گے، بوقتِ ضرورت چوں کہ نیٹ سے معلومات حاصل ہوجاتی ہیں؛ اس لیے کتاب پڑھنے کی ’’مستقل زحمت‘‘ کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں! 

اس صورت حال نے ہمیں انٹر نٹ کا ’’بندۂ بے دام‘‘ بنا دیا ہے، سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات ہماری ذہنی یکسوئی اور ترکیزی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔دَم بدَم بدلنے والے پیغامات ہمارے احساس اور جذبات کو کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی ایک خوش کن خبر ختم ہوئی نہیں کہ دوسری المناک خبر منتظر ہوتی ہے اور اس سے نگاہ ہٹتی نہیں کہ ایک مزاحیہ تحریر نظر نواز ہوتی ہے۔ چہرے پر کبھی غم کے سائے لہراتے ہیں، کبھی خوشی کی لکیریں اُبھرتی ہیں اور معاً چہرہ سپاٹ اور جذبات سے عاری نظر آتا ہے اور یوں یہ پیغامات انسانی جذبات میں مد و جزر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 

۲۰۱۰ء میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹینالوجی کے ماہر، امریکی مصنف نکولیس کار نے کہا کہ انھوں نے توجہ مرکوز رکھنے اور طویل کتابوں کو گہرائی سے پڑھنے کی اپنی صلاحیت میں کمی دیکھی، پہلے وہ فطری طور پر مطالعہ میں غرق رہتے تھے، جب کہ اب چند صفحات پڑھنا مشکل ہوگیا۔

اور ایسا لگتا ہے کہ پہلے کے مقابلے موجودہ وقت میں ہم سب پر یہ رجحان غالب آگیا ہے، ورنہ لمبے لمبے مضامین و مقالات پڑھنے کے حوالے سے ہماری صلاحیتوں میں گراوٹ کیوں آتی اور تھوڑی دیر میں اُکتاہٹ کا شکار کیوں ہوجاتے؟

نکولیس کار نے اپنی کتاب ’’The Shallows: What the Internet Is Doing to Our Brain‘‘ ’’سطحیت پسند لوگ: انٹر نٹ ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا کرتا ہے؟‘‘ میں اس بات کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی،انھوں نے لکھا کہ انٹرنٹ ہمیں بہت ساری سہولیات فراہم کرتا ہے۔ مثلا:  انٹرنیٹ، میل پڑھنے، معلومات کی تلاش، خریداری، لائبریری کی شیلفوں تک رسائی اور تلاش و جستجو اور بینکنگ کے کام کرنے کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ اور بہت کچھ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسا ذریعہ بن گیاکہ ہم تک پہنچنے والی اکثر معلومات اس سے ہوکر آتی ہیں۔اس سے پتہ چلا کہ ہمارے سوچنے کا زاویہ بدلنے والی چیز یہی انٹر نیٹ ہے۔

جب ہم نیٹ سے منسلک نہ ہوں، تب بھی ہمارے دماغ اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ معلومات خود بخود حاصل ہوجائیں، جیسا کہ ایک کلک سے نیٹ پر معلومات کا ایک سیلاب اُمنڈ آتا ہے۔

الجزیرہ نیٹ ورک کے مطابق اس کا تعلق اسکرین پر پڑھنے کی نوعیت سے بھی ہے، انٹر نیٹ کے ظہور کے بعد سے، آن لائن اسکرین پر پڑھنا لوگوں کی ترجیح بن گئی ہے، ان میں ہائپر ٹیکسٹ بھی ہوتا ہے (ہائپر ٹیکسٹ: متن کو دوسرے الیکٹرانک لنک سے جوڑنا) جس کی وجہ سے معلومات درخت کی شکل میں شاخ در شاخ ہوجاتی ہیں۔اس طرح کے ٹیکسٹ پڑھنے کی وجہ سے قارئین کی عادتوں میں تبدیلی رونما ہوئی اور یہ بات ذہنی تشتت و انتشار کا سبب بن گئی۔ 

2005 میں کینیڈا کی کارلٹن یونیورسٹی کے محققین نے ایک مطالعہ کیا کہ متن میں ہائپر ٹیکسٹ کا قاری کی علمی کارکردگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟تو انھوں نے پایا کہ مطالعہ کے دوران نئے صفحات کی لنک آنے کی وجہ سے ہمہ وقت جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے قار ی کا ذہن منتشر ہوتا ہے، اس کا ذہن لنک پر کلک کرکے دوسرے صفحات پر چھلانگ لگانے کی سوچتا ہے، اس طرح اس کی ذہنی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے اور نت نئے آنے والے مسلسل تغیرات قاری کو مربوط انداز میں سوچنے اور  سمجھنے سے روک دیتے ہیں۔۔۔۔

نٹ کی دنیا پر انحصار کرنے کی یہ مضرت تو تھی ہی، لیکن کتابوں سے دوری ایک مستقل محرومی ہے؛ کیوں کہ کتابیں پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے، اس کے لَمْس کی لذت، ورق گردانی کا لطف، نئے پرنٹ کی خوشبو اور پرانی کتابوں کی بو باس اور صفحات پر پھیلے ہوئے اذہان و قلوب کو جِلا بخشنے والے خاموش الفاظ و کلمات، نہ ہنگامہ، نہ شور و غوغا، نہ ہٹو بچو، نہ کسی کی آوا جاہی، طویل سناٹا اور مکمل یکسوئی… ایسے ماحول میں کتاب کا مطالعہ … 

لطفِ مَے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں 

آخر میں پیر زادہ عاشق کیرانوی کے اس شعر کا لطف لیتے چلیں: 

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر 

⇔⇔⇔⇔⇔⇔⇔⇔⇔⇔⇔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !