آج پھر سرِ شام ہی سے گہما گہمی تھی، بستی کے ایک گھر میں جو نسبتا بڑا اور کشادہ تھا، وہاں معمول سے زیادہ روشنی تھی، مہمانوں کی آمد تو کئی دنوں سے جاری تھی، مگر آج چہل پہل اور رونق اپنے شباب پر تھی، بستی کے دیگر مکانات میں معمول کی روشنی تھی، ذرا دیر بعد یہ روشنی بھی مدھم ہوگئی اور فضا میں سناٹا پسرنے لگا، کہیں کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آتی اور پھر طویل سناٹا چھا جاتا، اس سناٹے میں جھینگروں کی جھائیں جھائیں کافی بلند آہنگ معلوم ہوتی تھی۔
جب رات تا بہ کمر آ پہنچی، تو ہنڈوں اور بڑے بڑے برتنوں کی آواز سے میرے سامنے کا وسیع و عریض میدان گونج اٹھا، رات کے سناٹے میں یہ سرگرمی کسی فوجی دستے کی بھاگ دوڑ سے کم نہیں معلوم ہوتی تھی، دھیرے دھیرے افراد بڑھتے گئے، ان کی سرگوشیاں اب صاف سنائی دے رہی تھیں، پتہ چلا کہ بستی کے ایک متمول بندے کی بچی کی شادی ہے، آج بارات آنے والی ہے، یہ اسی کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
تقریبا پچاس برسوں سے بستی کے مشرقی کنارے پر اس وسیع و عریض میدان میں آئے دن اس طرح کی چھوٹی بڑی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں،میں برسوں سے یہ چہل پہل اور رونقیں دیکھ رہا ہوں، میرے بال و پر اس میدان کے اکثر حصے کا احاطے کئے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے چلچلاتی ہوئی دھوپ اور تپتی ہوئی گرمی میں بھی یہاں لوگوں کا ازدحام رہتا ہے، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا عورتیں اور کیا مرد، سبھی اس سایہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، پڑوس کے کھیتوں میں کام کرنے والے کسان بھی اپنی تھکن اتارنے یہیں آجاتے ہیں، اس طرح عام دنوں میں بھی یہاں کافی چہل پہل رہتی ہے۔
بہرحال آج نصف شب ہی سے کھانا بنانے کی کارروائی شروع ہوچکی تھی، براتیوں کی فوج آنے والی تھی، ادھر بستی کے بھی اکثر لوگ مدعو تھے، اس لیے کھانا کثیر مقدار میں پکناتھا، تھوڑی دیر بعد مصالحے اور میوہ جات کی خوشبووں سے میدان مہک اٹھا، دسیوں قسم کے گوشت اور سالن، چاول کی مختلف قسم کی ڈشیں، نت نئی نمکین اور شیریں ڈشیں اور نہ جانے کیا کیا؟؟؟ غرض باورچیوں نے اپنی پوری مہارت جھونک دی تھی۔
اس درمیان کتوں کی کئی ٹولیاں بھی در آئیں اور میدان کے مختلف گوشوں میں پوزیشن سنبھال کر بیٹھ گئیں، اگر کوئی بھگاتا تو مورچے بدل کر پھر پوزیشن سنبھال لیتے۔ ان کے انداز اور ہاؤ بھاؤ سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کھانا انھیں کے لیے بنایا جارہا ہے اور عنقریب عمدہ رکابیوں اور طشتریوں میں سجا کر انھیں پیش کیا جائے گا۔
شامیانہ لگانے کی ضرورت یوں نہیں تھی کہ میرا سایہ کافی تھا اور درخت کی چھاؤں سے بہتر اور کون سی چھاؤں ہوسکتی ہے؟؟؟ پھر بھی دولہے کے لیے ایک مختصر سا زرق برق شامیانہ لگادیا گیا اور بارات کا انتظار ہونے لگا۔
… بڑے طمطراق اور شان و شوکت کے ساتھ بارات آئی، لڑکی والوں نے پرجوش استقبال کیا، ناشتے کے بعد نکاح ہوا اور پھر کھانے کا دور شروع ہوا … باراتیوں کے ناز نخرے… خدا کی پناہ!!! … انواع و اقسام کے اتنے سارے کھانے ہونے کے باوجود اکثروں کو کھانے کی ڈشوں کی کمی کا شکوہ تھا … کسی کو یہ پسند نہیں، کسی کو وہ، کوئی اِس پر ناک چڑھا رہا تھا، کوئی اُس پر ، (کم ہی لوگ تھے جنھوں نے ان عمدہ کھانوں پر خدا کا شکر ادا کیا) غرض کہ مختلف تبصروں کے ساتھ کھانا شروع ہوا، مزے کی بات یہ کہ ہر بندے نے ہر ایک ڈش سے کھانا ضروری سمجھا، گویا کہ اگر کوئی ڈش چھوٹ گئی، تو عقدِ نکاح میں کچھ کمی رہ جائے گی یا آئندہ زوجین کی زندگی میں پیار و محبت اور سکون و اطمینان ان کے حلق تک کھانے ہی سے حاصل ہوگا، ورنہ خدا نخواستہ میاں بیوی کی زندگی میں زلزلہ آجائے گا اور تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے، بلکہ ممکن ہے کہ طلاق تک کی نوبت آجائے۔ … لہذا ہر کوئی اپنی خواہش سے زیادہ کھانے نکال رہا تھا، …مگر اکثروں کے پیٹ آدھے کھانے کا بھی تحمل نہ کر سکے اور انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی رکابیوں سے ہاتھ کھینچ لیے، بچا ہوا کھانا میدان کے کنارے ایک گڈھے کے پاس ڈال دیا گیا، میدان کے مختلف حصوں میں موجود کتوں کی بٹالین فورا یہاں سمٹ آئی اور کھانا ڈالتے ہی اس پر جھپٹ پڑی، اُنھیں باراتیوں کی طرح کسی ڈش پر کوئی اعتراض نہیں تھا، البتہ باراتیوں کی طرح چاہتے یہ بھی یہی تھے کہ سارا کھانا ان کے معدے میں اُتر جائے اور کسی کو ایک حَبّہ بھی نہ ملے۔
اب دو دسترخوان سجے ہوئے تھے: ایک باراتیوں کا مہذب اور منقش دسترخوان اور دوسرا کتوں کا … جو ہری گھاس کی چادر پر ڈال دیا گیا تھا… دونوں طرف کھانے پینے میں ہَوس کے وہی مظاہر تھے، مگر ایک طرف مہذب اور دوسری طرف بے ہنگم۔
چند گھنٹوں کے بعد کھانے کا یہ دور بھی ختم ہوگیا، میدان کے اس حصے میں جہاں کھانا پھینکا جارہا تھا، اشتہا انگیز کھانوں کا ایک تودہ بن گیا تھا، چند گھنٹوں پہلے جن کھانوں کو بڑے اہتمام سے پکایا جارہا تھا، لوگوں کی حریصانہ نگاہیں بار بار جن کی طرف اُٹھتی تھیں، وہ کھانا اب سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا تھا اور چرند و پرند اور کتوں کے علاوہ ان کا پوچھنے والا کوئی نہ تھا، کچھ دیر بعد سورج ڈھل گیا، اندھیرا پھیلنے لگا اور کتوں کی ٹولیاں بھی آسودہ شکم ہوکر بستی میں پھیل گئیں۔
اگلے دن صبح تڑکے ایک نو دس سال کا مفلوک الحال بچہ چھپ چھپا کر، لوگوں سے نظریں بچا کر کھانے کے اس تودے کے پاس پہنچ گیا، حالانکہ کھانے میں اب سڑاند پیدا ہوچکی تھی اور خوشبو بدبو سے بدل رہی تھی، لیکن پیٹ کی آگ نے اسے اس سے بے نیاز کردیا… کل اس نے برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ، رکابیوں اور پیالیوں کی کھنک اور ناؤ و نوش کا دور چلتے دیکھا تھا اور شام تک للچائی ہوئی اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی گھر لوٹ آیا تھا… اس نے پاس پڑی ایک رکابی اُٹھاکر اس میں قورمے، کباب اور چند مٹھی چاول رکھے اور اپنے گھر کی طرف دوڑ گیا، گھر پہنچتے ہی والد کا سامنا ہوگیا، والد نے دیکھا، تو اس کے ہاتھ سے بدبودار رکابی لے کر پھینک دی، ایک چپت لگائی اور کہا: بیٹے ! یہ امیروں کے کھانے کی چیزیں ہیں، اسے تو کیوں اُٹھا لایا؟؟؟
… لڑکے کا نام پپو تھا اور اس کے والد کا شرفو، شرفو سبزیاں بیچ کر گھر سنبھالتا تھا، گزشتہ روز اس کی سبزیاں کم فروخت ہوئی تھیں، جو کچھ آمدنی ہوئی تھی، اس میں سے بیوی کی دوا لینے کے بعد کھانے کا مختصر سامان ہی مل سکا تھا، جس سے بچے آسودہ نہ ہوسکے اور تشنہ کام ہی سو رہے تھے، اگلی صبح ناشتے کے لیے کچھ نہ تھا، ویسے بھی غریب لوگ ناشتے کا شوق نہیں پالتے … کل کا تشنہ کام آج صبح امیروں کے کھانے سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا، مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
والد نے اُس کی اس خواہش کا گلا گھونٹ دیا۔
… آج جمعہ کا دن ہے، جمعہ کی اذان ہوچکی ہے، جامع مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے، نمازیوں کے کانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے خطیب کی بلند آہنگ آواز آرہی ہے: ’’ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن‘‘ (سورۃ الاسرائ: ۲۷) فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ … اتنے میں چند کتے میدان کے کنارے پڑے ہوئے کھانے کے اس تودے میں کسی خاص ڈش پر لڑ پڑے، بھوں بھوں اور غوں غوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور خطیب کی آواز اس شور میں ڈوبتی چلی گئی۔
فضا میں ایک عجیب ارتعاش پیدا ہوگیا تھا۔
Mohammad Izhar Qasmi
Madrasa Arabiya Riyazul Uloom
Chowkia Guraini Jaunpur U, P,
Pin:222 139
Email: mizhar565@gmail.com
Mobile: 9389597963