مُردوں کے لیے بہترین تُحفہ

5 minute read
0

 
 انسان گناہوں کا پتلا ہے، اس سے چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، صبح و شام شعوری اور غیر شعوری طور پر گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں، نفس اور شیطان کے چنگل میں پھنس کر اس کا دامن معاصی سے آلودہ ہوتا رہتا ہے، اسی وجہ سے قرآن و احادیث میں گناہوں کے زہر کے تریاق یعنی استغفار کی طرف متوجہ کیا گیا اور اس کی فضیلت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم ومحفوظ ہونے کے باوجود کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، پھر ہم تو گناہوں کے سمندر میں سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں، اس لیے ہم سب سے زیادہ توبہ و استغفارکے محتاج ہیں، یہ استغفار(بخشش طلب کرنا) جیسے زندوں کے لیے تریاق ہے، اسی طرح مُردَوں کے حق میں بھی مفید ہے۔

ذیل میں زندوں کے استغفار سے مُردوں کو پہنچنے والے اجرو ثواب اورراحت و آرام کے تعلق سے دو احادیث ذکر کی جاتی ہیں :

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ عزوجل یرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنۃ ، فیقول: یا رب أنی لی ہذہ؟ فیقول: باستغفار ولدک لک۔ رواہ احمد۔(مشکاۃ المصابیح، باب الاستغفار والتوبۃ، الفصل الثالث :۲۰۶)

ترجمہ:۔’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت جنت میں نیک بندے کا مرتبہ بلند کریں گے، تو وہ بندہ عرض کرے گا کہ مجھے یہ رتبہ کیسے حاصل ہوا؟( جب کہ میں نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے مجھے یہ مقام بلند حاصل ہو) تو اللہ رب العزت فرمائیں گے: تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کرنے کی وجہ سے(تجھے یہ مقام بلند ملا ہے)‘‘

وعن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما المیت فی القبر إلا کالغریق المتغوث، ینتظر دعوۃ تلحقہ من أب، أو أم ، أو أخ، أو صدیق، فإذا لحقتہ کان أحب إلیہ من الدنیا وما فیہا، وإن اللہ تعالیٰ لیُدخِلُ علی أہل القبور من دُعاء أہل الأرض أمثال الجبال، وإن ہدیۃ الأحیاء إلی الأموات الاستغفار لہم۔ رواہ البیہقی فی شعب الإیمان۔ ( المصدر السابق)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قبر میں مردہ کی حالت اس ڈوبتے ہوئے شخص کی سی ہوتی ہے جو مدد کے لئے کسی کو پکار رہا ہو( کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پانی سے باہر نکال لے اور ڈوبنے سے بچالے) وہ مردہ ( ہروقت) اپنے والدین، بھائی بند اوردوست احباب کی طرف سے پہنچنے والی دعاء خیر کا منتظر رہتا ہے، لہٰذا جب اسے کوئی دعا پہنچتی ہے، تو یہ اس کے نزدیک دنیا وما فیہا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے( یعنی اگر اسے دنیا اوردنیا کی تمام لذتیں میسر ہوتیں، تو اتنا خوش نہ ہوتا، جتنا اس دعاء خیر کے ملنے سے خوش ہوگا) اوراللہ تعالیٰ قبر والوں کو دنیا والوں کی طرف سے دعا کا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتے ہیں اورزندوں کی طرف سے مردوں کے لیے بہترین ہدیہ استغفار ہے۔‘‘

حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ ’’جس نے مؤمن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کیا، اللہ رب العزت اس کے لیے ہر مؤمن مرد و عورت کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں۔‘‘ (رواہ الطبرانی فی الکبیر ۲۳؍۳۷۰) 

استغفار کے اتنے بڑے اجر و ثواب کی حکمت بظاہر یہ ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ رب العزت کی پیدا کردہ ہے اور پیدا کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کی جائے، لہذا جب کوئی بندہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ کسی بھی قسم کی بھلائی کرتا ہے، تو اللہ تعالی اسے بہت پسند کرتے اور اجر و ثواب سے نوازتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ’’الخلق عیال اللہ فأحب الخلق الی اللہ من احسن الیہ‘‘ (شعب الایمان :۲۵۲۸) 

اسی وجہ سے جب کوئی بندہ خلقِ خدا کے ساتھ بُرا برتاؤ کرتا ہے، ان کی دست گیری، غم خواری اور غم گساری نہیں کرتا، تو اللہ رب العزت اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار تھا، لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی، انسان تعجب سے عرض کرے گا: اے میرے رب تو تو سارے جہان کا پروردگار ہے تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے اس کے باوجود تو اس کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے (میری رضا)وہاں پاتا۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یا د نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو مجھے وہاں پاتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا۔ اے دونوں جہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا، لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی، تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔‘‘(مسلم، کتاب البر و الصلۃ، حدیث نمبر: ۶۵۵۶) 

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی میں بھی خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کریں اور مرنے کے بعد بھی اپنے والدین، رشتہ دار، دوست احباب، اساتذہ ومشائخ اورمحبین ومحسنین کے لیے کثرت سے دعا اوراستغفار کرتے رہیں، تاکہ یہ ہماری طرف سے ان کے حق میں بہترین ہدیہ اورتحفہ ہو۔


٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !