کسی بھی شعبے؍ میدان میں کامیابی کے لیے محض قابلیت یا اہلیت کافی نہیں، بلکہ کامیابی کا انحصار قابلیت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزوں پر بھی ہوتا ہے جو ایک اہل شخص کو اپنی اہلیت اور قابلیت کو نتیجہ خیز اور ثمر آور بنانے میں مددگار ہوں اور تخصص کے شعبے میں اسے کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو فعال (Active) بنائیں۔
(۱) ان میں سے ایک چیز گہری مؤثر خود آگاہی اور خود اعتمادی ہے؛ چنانچہ ایک شخص اپنے بارے میں جو مثبت یا منفی تصور رکھتا ہے، وہ اس کی زندگی کی سمت کا تعین کرنے اور اس کے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کا سامنا کرنے کے حوالے سے اس کی انتہائی صلاحیت کی حد کا تعین کرنے ایک بڑے بنیادی سبب کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس کی صلاحیت خواہ کتنی ہی مناسب کیوں نہ ہو، اسے مناسب جگہ اور مناسب وقت میں کامیابی کی ضامن اپنی بھرپور صلاحیت کے استعمال کا موقع اس وقت تک نہیں ملتا، جب تک خود اسے اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس طرح کی صلاحیت میرے اندر موجود ہے۔
اپنی اعلی درجہ کی عضلاتی قوت سے مشہور، کسی بھی دوسرے پہلوان کو زیر کر دینے کی صلاحیت رکھنے والا طاقت ور ترین شخص کے لیے اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اسی وقت ممکن ہے، جب اسے اس بات کا بھرپور شعور ہو کہ وہ حقیقتا طاقت ور ہے اور وہ دوسرے کو پچھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک صاحب طرز ماہر انشاء پرداز ایسی تحریر لکھ سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ معاصر مصنفین اور انشاء پردازوں میں ممتاز ہوجائے، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب نفسیاتی طور پر اسے اس بات کا یقین ہو کہ وہ واقعی بہترین تحریری صلاحیت کا مالک ہے۔
اسی طرح دلوں کو موہ لینے والی جادو بیانی کی صلاحیت کا حامل اپنی اس صلاحیت سے اسی وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے، جب اسے اپنی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور شروع ہی سے اس بات کا یقین ہو کہ اس میں خطابت کی ایسی صلاحیت ہے جو اس کے ہم عصر خطیبوں میں سے کم ہی کے اندر ہوگی۔
درست خود آگاہی، اپنی ذات پر مکمل اعتماد اور ان خوبیوں اور کمزوریوں سے واقفیت جو انسان کے اندر ہیں، زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے ضروری عناصر ہیں۔ بہت سے اہل لوگ وہ کام نہیں کرپاتے، جس کام کی ان کے اندر اہلیت موجود ہوتی ہے اور وہ اس میدان میں کام کرکے تمغۂ امتیاز حاصل کرسکتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں منفی تصور رکھتے ہیں اور خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔
قابلیت اور صلاحیت انسان کے اندر سے پھوٹنے والے طاقت کے سرچشمے کی بنیاد پر کام کرتی اور مؤثر ہوتی ہے اور یہ سرچشمہ اسی وقت پھوٹتا ہے، جب انسان کو اپنے اوپر مکمل اعتماد ہو اور اپنے بارے میں مثبت اور پرامید نظریہ رکھے۔
کتنے ہی لوگ ہیں کہ جب انھیں کسی میدان میں اپنا متوقع کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، تو گر پڑتے اور ناکام ہوجاتے ہیں؛ کیوں کہ وہ اندر سے پہلے ہی ٹوٹ چکے ہوتے ہیں اور انھیں خود پر بھروسہ نہیں ہوتا۔
(۲) ہدف کی تعیین و تحدید اور انسانی ذہن میں اس کا واضح اور آشکارا ہونا؛ کیوں کہ ہدف کے نظروں سے اوجھل ہونے کے سبب وقت بھی برباد ہوتا ہے اور کوشش بھی رائیگاں جاتی ہے۔ مثلا: مسجد، مدرسہ یا کسی اور مقام پر جانے کے لیے آپ گھر سے نکلے اور راستے میں بے مقصد ادھر ادھر چکر کاٹنے لگے، ایسی صورت میں مدرسہ یا مسجد پہنچ جانا اتفاق ہی کہلائے گا، بل کہ غالب امکان یہ ہے کہ آپ اپنی منزل مقصود کو نہیں پہنچ پائیں گے؛ کیوں کہ گھر سے نکلتے وقت آپ نے ہدف متعین نہیں کیا اور یوں ہی راستہ ناپنے لگے، لہذا آپ کا وقت اور کوشش دونوں اکارت ہوگئی۔
اگر آپ گھر سے نکلتے وقت ہدف متعین کر لیتے کہ آپ کو فلاں مقام تک پہنچنا ہے، تو اس مقام تک پہنچنے کا درست اور قریب ترین راستہ اختیار کرتے، جس کی وجہ سے آپ کا وقت اور کوشش دونوں بارآور ہوتی۔
مقصد کی تعیین ہمیشہ انسان کو مقصد کی طرف گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
(۳) مقصد تک پہنچنے کے طریقوں؍ تدابیر کی معرفت یا مقصد تک پہنچنے کی پلاننگ۔
کبھی کبھی مقصد تو واضح اور متعین ہوتا ہے، لیکن انسان کو اس ہدف تک پہنچنے کی تدابیر کا علم نہیں ہوتا، چنانچہ وہ ان تدابیر کو اختیار نہ کرکے ایسے طریقے اختیار کرلیتا ہے، جو اسے بجائے ہدف سے قریب کرنے کے مزید دور کردیتے ہیں، لہذا یہ بات گرہ باندھ لینی چاہئے کہ پیشگی پلاننگ تھوڑے وقت اور آسان طریقے سے متوقع نتائج کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔
(۴) متعین ہدف پر توجہ مرکوز رکھنا اور امور سے بچنا جن کی وجہ سے توجہ مختلف امور اور جہتوں میں بٹ جائے اور جو ذہنی انتشار کا باعث ہوں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں انسان اپنے ہدف کو کامل اور نتیجہ خیز صورت میں حاصل نہیں کر سکتا؛ کیوں کہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تمام کوششوں کو کسی متعین چیز کے حصول کے دائرے میں رکھے، بل کہ اس کی کوششیں مختلف اہداف کے درمیان بکھر جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان میں سے کسی چیز پر بھی عبور حاصل نہیں کر پاتا۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی پرائیویٹ اسلامی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے کسی بھی مضمون کے لیے ماہر پروفیسر؍ استاذ نہیں ملتے، جب کہ ماضی میں ایسے باکمال لوگوں کی کمی نہیں تھی؛ کیوں کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں انسان کسی خاص ہدف پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے، اس کی دل چسپیاں اور توجہات مختلف اہداف میں بٹ گئی ہیں، وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ حاصل کرلے اور ہر معاملے؍ مضمون کی جانکاری ہو، لیکن اس کے بس میں نہیں کہ وہ ہر مضمون میں مہارت حاصل کرسکے، وقت نے اہل زمانہ کے درمیان ایک جنونی مقابلے کا میدان پیدا کر دیا ہے، نئی نسل کا ہر فرد تمام علوم و فنون اور مضامین میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتاہے، نتیجۃً وہ ان میں سے کسی ایک پر بھی عبور حاصل نہیں کر پاتا، اس کی کوششیں کسی خاص چیز پر مرکوز نہ ہونے کی وجہ سے بار آور نہیں ہوتیں، ارتکاز وہ واحد چیز ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی توانائی، کوشش اور خواہش پر توجہ مرکوز کرسکے۔
ماضی میں انسان کے وقت اور محنت کی یہ تباہ کن وجوہات اور مختلف مشاغل میں اس کی دل چسپیوں کو تقسیم کرنے والے یہ اسباب مہیا نہیں تھے، اس کے لیے یہ آسان تھا کہ وہ اپنے آپ کو مطلوبہ کام کے لیے وقف کردے، اس کے لیے یکسو ہوجائے اور اس میں اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو نچوڑ دے، جس کی وجہ سے وہ اس فن میں اتنی مہارت حاصل کرلیتا کہ لوگوں کے درمیان مشہور ہوجاتا۔
جہاں تک آج کے انسان کا تعلق ہے تو وہ سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہیں جانتا؛ کیوں کہ وہ ہر چیز کے چند پہلوؤں پر توجہ دیتا ہے، جب کہ دیگر بہت سے پہلو اس کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، اسے ہر معاملے کے احاطہ کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا، چہ جائے کہ اس میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرے۔
تشتت کے انھیں اسباب میں سے میڈیا اور ترقی یافتہ انفارمیشن ٹکنالوجی ہے، جس نے گھر، گلی کوچے، اسکول، بازار، کام کی جگہوں، دفتروں، دوکانوں اور انسانی خلوت گاہوں غرض ہر جگہ حملہ آور ہوکر انسان کی ذہنی قوتوں اور اس کی ارتکازی صلاحیتوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، کتنے طلبہ محض اس وجہ سے ضائع ہوگئے کہ انھوں نے پڑھائی پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی، کتنے تاجروں کو اس وجہ سے گھاٹا ہوا کہ انھوں نے کام کے اوقات کو انٹرنیٹ اور موبائل کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزار دیا۔ اور کتنے اساتذہ اس کی وجہ سے اسباق کی اس طرح مکمل اور بھر پور تیاری نہ کرسکے، جیسا کہ اس کا حق تھا، چنانچہ وہ کلاس روم گئے اور اپنے فرض منصبی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا اور اس طرح درس دیا جس سے طلبہ بھرپور استفادہ نہ کرسکے۔ اور کتنے ایسے ملازمین ہیں جو آفس یا کام کی جگہوں میں تھکے ماندے حاضر ہوئے؛ کیوں کہ انھوں نے سیٹلائٹ چینلز کے ساتھ ساری رات جاگ کر گزاری، لہذا وہ صحیح طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے قاصر رہے۔
(۵) یہ بات یاد رکھیں کہ کسی بھی میدان میں کامیابی کا دار و مدار محنت اور صبر و استقامت پر ہے۔ یہ کامیابی کا ایک اہم عنصر ہے؛ چنانچے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کامیابی کے مندرجہ بالا (۴) عوامل کو پورا کرتے ہیں، لیکن وہ آخر تک صبر نہیں کر پاتے اور بیچ راستے سے واپس ہوجاتے ہیں، یہ عنصر کامیاب اور ناکام لوگوں کے درمیان ایک بہت بڑا فرق تشکیل دیتا ہے۔ کامیاب ہونے والے اس وجہ سے کامیاب اس وجہ سے کامیاب ہوئے کیوں کہ ثابت قدمی سے راستہ مکمل کیا، ناکام ہونے والوں نے ایک خوبصورت آغاز کیا، لیکن وہ صبر کو کھو بیٹھے اور سفر جاری نہ رکھ سکے، لہذا وہ مقصد حاصل نہ کرسکے۔
دور حاضر نے کسی کام کے انتہا اور تکمیل تک صبر کرنے کی انسانی صلاحیت چھین لی ہے اور اسے ایک بے صبرا اور جلد باز انسان بنا دیا ہے، جو کسی مقصد پر ثابت قدم رہتا ہے اور نہ انجام پر صبر کرتا ہے؛ کیوں کہ اس کی زندگی میں توقف اور طویل انتظار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔
کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہر شخص کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی مایوسی اور تنگ دلی سے دور رہ کر ہمیشہ پر امید رہے؛ کیوں کہ کامیابی ایک رجائیت پسند ہی حاصل کر سکتا ہے جو اپنے معاشرے اور ماحول پر اثرانداز ہونے کی اپنی صلاحیت پر یقین رکھتا ہو، ایک ٹوٹا ہوا، مایوس شخص جو یہ سمجھتا ہو کہ مؤثر کامیابی کرنے یا مؤثر تبدیلی کی قیادت کرنے سے قاصر ہے، وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی لائق توجہ اور قابل ذکر چیز حاصل کرسکتا ہے۔