امیر اور غریب

3 minute read
0

 


رات اپنے ایک امیر دوست کی ملاقات کے لیے رواں دواں تھا، اچانک دیکھا کہ ایک آدمی اپنا پیٹ دبائے بیٹھا ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے پیٹ میں تکلیف ہو۔ میں نے پوچھا ، کیا بات ہے؟ اس نے کہا : بھوک کی وجہ سے برا حال ہے۔ میں نے اپنے پاس موجود کھانے پینے کا سامان اس کے حوالہ کردیا اور دوست کی ملاقات کے لیے آگے بڑھ گیا، وہاں پہونچ کر میں نے جو منظر دیکھا، اس نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ایں چہ بو العجبی ست۔ مالدار دوست بھی پیٹ پکڑے بیٹھا تھا، پیٹ میں شدید تکلیف تھی، سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اسے بدہضمی کی شکایت ہے۔ میں نے سر پکڑ لیا اور من کی دنیا میں کھو گیا۔ اے کاش!!! یہ مالدار ضرورت سے زائد کھانا فقیر کو دے دیتا، تو دونوں آرام سے رہتے۔ نہ اُسے بھوک کی شکایت ہوتی ،نہ یہ بدہضمی کا شکار ہوتا۔ 

امیر کے لیے مناسب تھا کہ وہ اتنا ہی کھاتا جس سے اس کی بھوک مٹ جاتی اور اس کے پیٹ کی آگ بجھ جاتی، مگر وہ کھانے کا حریص تھا ؛ چنانچہ اس نے اپنے دسترخوان پر وہ بھی سمیٹ کر رکھ لیا جو فقیر کا حصہ تھا، نتیجۃً اللہ نے اسے بدہضمی میں مبتلا کر دیا،تاکہ ظالم ظلم کرکے خوش عیش نہ رہے اور اس کی زندگی مکدر ہوجائے۔ کہاوت ہے: ’’مالدار کی بدہضمی فقیر کی بھوک کے انتقام کا نتیجہ ہے۔‘‘

نہ آسمان اپنے پانی پر بخیل ہے اور نہ زمین اپنی پیداوار پر، البتہ طاقتور کمزور کو دباتا ہے، جس کی وجہ سے آسمان سے اترنے والی اور زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو اس سے روکتا ہے ۔۔۔۔ ان کا بس چلے تو کمزوروں کے سانس لینے پر پابندی لگادیں اور ضعیفوں کی روح قبض کرلیں۔ 

کچھ مالدار اتنے ظالم اور پتھر دل ہوتے ہیں کہ وہ شکم سیر ہو کر اپنے نرم و گداز بسترپر لیٹتے ہیں ،لیکن پڑوس سے آنے والی بھوک سے بیتاب اور تڑپتے ہوئے بچوں کی آواز بھی انھیں بے تاب نہیں کرتی، وہ نوع بنوع کے کھانوں سے سجے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں اور ان کی لالچی طبیعت میںیہ جانتے ہوئے بھی کوئی بے کیفی پیدا نہیںہوتی کہ ان کے بعض پڑوسی اور رشتہ دار بھوکے ہیں،جن کی آنتیں بھوک کی شدت سے اینٹھ رہی ہیں اور بچے ہوئے کھانے (جو اکثر و بیشتر کوڑے دان کی نذر ہوجاتا ہے ۔) کے اشتیاق میں ان کی زبان سے رال ٹپکتی ہے۔ پھر ان میں سے بعض تو یہاں تک کرتے ہیں کہ انھیں فقراء کے سامنے اپنی خوش عیشی کے ترانے، اپنی مرفہ الحالی کے قصے، اور کامیابیوں اور حصولیابیوں کی کہانیاں بیان کرتے ہیں، اور مال و دولت کو شمارکراتے ہیں ؛ تاکہ فقیر کا دل ٹکڑے ہوجائے ، اس کی زندگی مکدر ہوجائے اور وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگے۔ وہ اپنی گفتگو کے ہر لفظ سے فقیر کے سینے کو چھلنی کرتے ہیں اور اپنی تمام حرکات و سکنات سے بزبانِ حال یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ’’میں خوش بخت ہوں ؛ کیونکہ میں مالدار ہوں ، تمہارا نصیبہ کھوٹا ہے؛ کیونکہ تم غریب ہو۔‘‘ 

انسان صحیح معنوں میں اسی وقت انسان بن سکتا ہے جب اس کے اندر دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی اور غم گساری کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ 

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں 

ہر طرح کا عیش و آرام ، مال و دولت کی فراوانی ، دنیا جہان کی ڈگریاں اور ہر طرح کی لیاقت و قابلیت کے باوجود اگر انسان میں ’’انسانیت ‘‘پیدا نہ ہوسکی ، تو اس انسان اور ایک حیوان میں کیا فرق ہوگا؟؟؟

گھروں پہ نام تھے، ناموں کے ساتھ عہدے تھے 

بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا 


٭ ٭ ٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !