وہ اپنے گاؤں کے مکتب میں پرائمری سال دوم کا طالبِ علم تھا، عمر یہی کوئی آٹھ دس سال رہی ہوگی، دبلا پتلا، منحنی سا، اپنے درجے میں سب سے بودا اور کمزور سمجھا جانے والا، استاذ کی نظروں سے گرا ہوا، گم صم، تنہائی پسند، استاذ سبق پڑھاتے، سمجھاتے، تو اس کے پلّے کچھ نہ پڑتا تھا، جیسے دماغ کی کھڑکی کسی نے مضبوطی سے بند کردی ہو، وہ مکتب میں آتا تو ضرور تھا، مگروالدین کی زور زبردستی کے سبب وقت گزاری کرنے کے لیے۔ اساتذہ نے بھی اسے نالائق ترین لوگوں کی فہرست میں داخل کردیا تھا اور وہ خود بھی اپنے کو نالائق ترین لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ …… اور پھر تو ایسا ہوگیا کہ استاذ کوئی بات سمجھاتے تو وہ یہ سوچ کر کان نہیں دَھرتا تھا کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی، استاذ بھی سمجھاتے ہوئے کبھی کبھی کہہ دیتے کہ تو کیا سمجھے گا اور وہ بچہ بھی آمنا صدقنا کہتے ہوئے استاذ کی بات پر ایمان لے آتا تھا کہ بالکل حضور! یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے!!! … خدا جانے مار کی دہشت تھی، اس کی کم فہمی یا کچھ اور؟ اس کا دماغ خالی ڈبّہ ہوگیا تھا۔ استاذ کی قمچیاں کھانے کے لیے اس کے پاس پشت کے علاوہ دو ہاتھ تھے، کبھی کبھی ٹخنوں اور پنڈلیوں سے بھی وہ یہ کام لے لیا کرتا تھا۔ …… کیسے کیسے گھسٹتے ہوئے وہ درجہ اطفال سے اول اور پھر اول سے دوم میں آیا تھا۔
مکتب کے پاس چوراہے پر اس کے والد کی ایک چھوٹی موٹی دوکان تھی ، والد کو بچے کی فکر لگی رہتی تھی، لہذا وہ گاہے گاہے مکتب میں منشی جی، ماسٹر صاحب اور حافظ صاحب سے بچے کی خیر خیریت، سمجھ بوجھ اور پڑھائی میں اس کی دل چسپی کے متعلق دریافت کرتے رہتے تھے۔
مئی یا جون کی جھلسا دینے والی شدید گرمی تھی، بچے مکتب کی چھت پر بیٹھے تھے، اس دن بھی وہ لنگی بنڈی میں ملبوس، کندھے پر رومال ڈالے اور چٹکیوں سے تمباکو مَسَلتے ہوئے درجہ میں آئے، بعد نماز ظہر حساب کا گھنٹہ تھا، ماسٹر صاحب نے جوڑ کا ایک انتہائی آسان سوال حل کرنے کو کہا تھا، طلبہ سوال حل کرکے سلیٹ جمع کرچکے تھے۔ والد نے بچے کے بارے میں دریافت کیا، تو ماسٹر صاحب … جو پہلے ہی اس بچے کی کارکردگی سے نالاں تھے۔۔۔ اور بھرے بیٹھے ہوئے تھے۔… بچے کا سلیٹ والد کے حوالہ کردیا کہ لیجئے، خود ہی دیکھ لیجئے! والد نے دیکھا کہ دو دو چار کی طرح انتہائی آسان سوال بھی بچہ حل نہیں کرسکا،تو انھوں نے اسی وقت ایک فیصلہ کیا اور مہتمم صاحب سے کہہ کر بچے کو ایک سال پیچھے درجہ اول پرائمری میں داخل کرادیا۔
دوسرے دن وہ بچہ درجہ پرائمری اول میں گیا، استاذ نے اُسے سبق پڑھاکر یاد کرنے کو کہا، اسے الفاظ مانوس مانوس سے لگے، چنانچہ اس نے تھوڑی دیر میں سبق یاد کرکے استاذ کو سنا دیا، استاذ نے اسے حوصلہ دیا اور آئندہ اگلا سبق یاد کرکے لانے کو کہا، اس دن کی کارکردگی اور استاد کے برتاؤ سے وہ بہت متاثر ہوا، اسے لگا کہ وہ پڑھ سکتا ہے ، وہ بھی کتاب یاد کرکے استاذ کو سنا سکتا ہے، اس طرح چند دن گزرے، تو اس کے حوصلوں میں جان پڑ گئی، اسے لگا جیسے ذہن کی ساری کھڑکیاں چوپٹ کھل گئی ہوں، عقل و فہم اور سمجھ بوجھ کی خوشبوؤں سے اس کا سارا وجود معطر ہوگیا، اب وہ لنگڑا بیل نہیں تھا، بلکہ اسپِ تازی ہوگیا تھا، وہ پڑھنا چاہتا تھا، علم و فن کے سمندر میں غوطے لگانا چاہتا تھا، وہی فضائیں جو کل تک اُسے گھورتی اور اس پر طنز کرتی تھیں، آج اُسے لوریاں دینے کو تیار تھیں، ہواؤں کے جھونکے جو کل تک اُسے کانٹے کی طرح چھبتے تھے، آج اس کے سارے وجود کو نہال کر رہے تھے، غرض کہ اس کی دنیا بدل چکی تھی، ہر طرف خوشی و مسرت کے شادیانے بجتے محسوس ہوتے، ہر چیز سے اپنائیت ٹپکتی تھی۔ … …ششماہی امتحان ہوا، تو وہ امتیازی نمبرات سے پاس ہوا، اس کی باچھیں کھل گئیں، اس کے قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے، جیسے کسی نے اسے زمین سے فضا میں اچھال دیا ہو، اچھلتے کودتے والد کو جاکر اپنا نتیجہ دکھلایا ’’ہاؤم اقرأوا کتابیہ‘‘ والد کی آنکھوں میں فخر و مسرت کے آنسو تیرنے لگے، جیب سے دس روپیہ نکال کر بچے کو انعام دیا، … یہ زندگی کا پہلا انعام تھا جو اس کی تعلیمی کارکردگی پر خوش ہوکر والد نے دیا تھا، …… اب اس کا شمار اپنے درجہ کے ذہین اور فائق طلبہ میں ہونے لگا۔ املاء بولنے، ساتھی بچوں کا سبق سننے اور سبق یاد کرانے کی ذمہ داری اسے بھی دی جانے لگی، پھر تو جیسے اسے پر لگ گئے ہوں، وہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ سالانہ امتحان میں بھی اس کی کارکردگی عمدہ رہی، جس کی وجہ سے انعامی جلسہ میں بھی اسے انعام سے نوازا گیا۔ آج اس کی طرف طنزیہ نہیں، بلکہ رشک بھری نگاہیں اٹھ رہی تھیں اور اس کا دل مسرت و شادمانی سے لبریز ہورہا تھا۔
اگلا سال پرائمری دوم کا تھا، نئی امنگوں اور نئے حوصلوں کے ساتھ وہ درسگاہ میں داخل ہوا، یہاں بھی اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اپنی عمدہ کارکردگی سے سب کا نورِ نظر بن گیا، سالانہ امتحان میں اس نے ایک کے علاوہ سب طلبہ کو پیچھے چھوڑ دیا، صرف ایک طالب علم تین نمبرات سے اس سے آگے تھا، لیکن پھر سوم، چہارم اور پنجم میں دیگر طلبہ اس کی گردِ راہ ہی دیکھتے رہے، کوئی اس کے قدم سے قدم نہ ملا سکا۔
……………اس پورے واقعے میں اس کے والد گرامی کا زبردست دانش مندانہ کردار تھا، جنھوں نے بروقت اس کی تعلیمی کمزوری کا ادراک کرلیا اور پیچھے ہٹ کر ایک پُر اعتماد اور لمبی چھلانگ لگانے پر اسے آمادہ کیا۔
لیل و نہار گردش کرتے رہے، ماہ و سال گزرتے رہے، وہ بچہ زندگی کے میدان میں ایک کامیاب فرد بن گیا اور پھر کچھ عرصے بعد والد کا وصال ہوگیا۔ آج بھی گورِ غریباں سے گزرتے ہوئے اس کے قدم بے اختیار والد کی قبر کی طرف اٹھ جاتے ہیں کہ یہی وہ مردِ دانا ہے، جو خود پیوندِ خاک ہوکر زندگی کے میلے میں مجھے اپنے قدموں پر کھڑا کر گیا۔ یہ سوچ کر اس کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں اور وہ اپنی آستین میں انھیں جذب کر لیتا ہے۔
یہ آنسو اس کی زندگی کی قیمتی متاع ہیں۔
Mohammad Izhar
,Madrasa Arabiya Riyazul Uloom Room: 70
Chowkiya Guraini Khetasarai Jaunpur U,P
Pin:222 139
Mobile: 9389597963
Email: mizhar565@gmail.com
اپنے تبصروں سے ضرور نوازیں۔