بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (5) گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ تحریر: حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؔ رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ ترجمانی: ابنِ سراج قاسمیؔ

6 minute read
0

بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (5) گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ تحریر: حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؔ رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ ترجمانی: ابنِ سراج قاسمیؔ

 یہ عام گلے شکوے ہیں جن کا اظہار ان دنوں شوہر اپنی بیویوں کے تعلق سے کرتے رہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں ازدواجی زندگی کو بھڑکتی ہوئی آگ بنا دیتی ہیں، زندگی کی خیرو برکت ختم ہوجاتی اور وہ اضطراب، بے چینی، تنگدستی اور محرومی کی ایک تصویر بن جاتی ہے، رحمت زحمت سے اور راحت عذاب سے بدل جاتی ہے، اس سنگین صورت حال میں آدمی موت کی تمنا کرتا ہے ؛ تاکہ ان پیچیدگیوں سے چھٹکارا پا جائے جن کے حل کرنے کی اس میں طاقت نہیں ہے۔
اسی لئے اہل عرب نے زندگی کو بے لطف و مکدر کرنے والی، شوہروں کو تنگ کرنے والی اور مندرجہ بالا مسائل و مشکلات کا سبب بننے والی خواتین سے شادی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اہل عرب نے کہا کہ ’’حَنَّانَہ ، مَنَّانہ ، أنَّانہ، حَدَّاقہ، بَرَّاقہ، شَدَّاقہ، کَنَّانہ اور عُشْبَۃُ الدار ‘‘ سے نکاح نہ کیا جائے۔ 
(۱) ’’حنانہ‘‘ وہ عورت جو ہمیشہ اپنے میکے کے اشتیاق میں رہتی ہو، شوہر کیا چاہتا ہے، وہ فوری ضرورتیں کیا ہیں جنھیں صرف وہی پوری کرسکتی ہے، اسے اس کی بالکل پروا نہ ہو اور بار بار میکے آنے جانے کی وجہ سے ازدواجی زندگی اور اس کے تقاضوں میں خلل پڑتا ہو۔ 
بعض حضرات نے ’’حنانہ‘‘ کی تعریف یہ کی ہے کہ جو ہمیشہ دوسرے شوہر کے اشتیاق میں رہے، وہ موجودہ شوہر اور موجودہ حالات سے خوش نہ ہو، پیہم اپنے شوہر اور دوسروں کے بیچ موازنہ کرکے دوسروں کو اس پر فوقیت دیتی ہو اور اس طرح وہ مسلسل شوہر کے لئے دردسر بنی ہوئی ہو۔
اس قسم کی عورتیں اپنے شوہر کے لئے شدید اذیت کا باعث بن جاتی ہیں، اسی وجہ سے اہل عرب نے ان سے شادی کرنے سے منع کیا ہے۔ 
(۲) ’’المنانہ‘‘بیوی ہونے کی حیثیت سے اس پر جو ذمہ داریاں ہوں، ان کی ادائیگی پر احسان جتلائے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ’’منانہ‘‘ ایسی خاتون ہے جو اپنے میکے سے بہت سا سامان لائی ہو اور شوہر سے ہمیشہ اس کا احسان جتلاتی ہو اور کہتی ہو کہ میرے والدین نے اتنا زیادہ سامان، زیور، کپڑے اور مختلف قسم کی چیزیں دی ہیں جن سے ہم زندگی میں نفع اٹھاتے اور جن کی بدولت ہم خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں، لیکن آپ کو نہ ہمارے والدین کی فکر ہے، نہ ان کے احسانات کا اعتراف۔ 
(۳) ’’الانانہ‘‘ ایسی عورت جو ہمیشہ وجہ اور بلا وجہ شکوہ کناں رہتی ہو، جو ہمیشہ سر، ہاتھ، پیر یا پیٹ کی تکلیف ظاہر کرتی ہو اور علاج معالجہ کی خواہاں رہتی ہو اور شوہر سے ڈاکٹر کو بلانے یا خود اسے اسپتال لے جانے کا مطالبہ کرتی ہو، جس کی وجہ سے شوہر اور اس کے گھر کے لوگ تنگ آجاتے ہوں ؛ کیوں کہ وہ حقیقۃً بیمار نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کو تنگ کرنا چاہتی ہے، تاکہ گھر کے لوگ ذمہ داریوں کے سلسلے میں اسے نظر انداز کریں اور بیوی ہونے کے ناطے گھر چلانے، شوہر اور اس کے والدین کی خدمت اور دیگر گھریلو کاموں کے سلسلے میں اس سے باز پرس نہ ہو۔
(۴) ’’الحداقہ‘‘ ایسی عورت جو مادی طور پر شوہر کو تھکا دے، اس طرح کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی چیزوں کو دیکھتی ہو اور شوہر کو اس جیسا لانے پر مجبور کرتی ہو ،وہ کبھی اپنے اور شوہر کے پاس موجود چیزوں سے آسودہ نہ ہوتی ہو، اس کی نگاہ ہمیشہ ان چیزوں کی طرف لگی رہتی ہو جو اس کے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور ملاقات کے لئے آنے جانے والوں کے پاس ہو، پھر وہ شوہر پر بھی انھیں جیسی چیزیں خریدنے کا دباؤ بناتی ہو، جنھیں وہ جدت، خوبصورتی، عمدگی اور اچھوتے پن کی مثال سمجھتی ہو۔
(۵) ’’البراقہ‘‘ جو زیادہ تر وقت اپنے چہرے کو چمکانے اور سنوارنے میں صرف کرتی ہو اور افراط کی حد تک دن کا اکثر حصہ اپنے ظاہر کو سنوارنے میں گزارتی ہو، شوہر کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے اور اپنے حسن پر فریفتہ کرنے کے لئے ؛ تاکہ لوگ اس کے بارے میں یہ تبصرہ کریں کہ وہ بے مثال حسن و جمال کی مالک ہے۔ 
ایسی عورت ہمیشہ ذمہ داریوں سے بھاگتی ہے؛ کیوں کہ اپنے ظاہر پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے اسے شوہر کی خدمت، اولاد کی تربیت، گھر کے نظم و نسق اور کپڑے ، برتن اور دیگر سازوسامان کی صفائی ستھرائی کا موقع نہیں ملتا۔
شوہر کو خوش کرنے کے لئے زیب و زینت پسندیدہ اور ضروری ہے، لیکن اس میں توازن اور اعتدال کی ضرورت ہے تاکہ عورت گھر کے دیگر کاموں کو بحسن و خوبی انجام دے سکے اوراپنے شوہر، بال بچے اور ساس سسر کی خدمت کرکے نیک اور صالح خاتون بن سکے۔
(۶) ’’الشداقہ‘‘ جو بہت باتونی ہو، ہمیشہ بلند آواز سے بات کرتی ہو، چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر بھی بے تکان بولتی ہو، جس کی وجہ سے سارے لوگ اس سے دل برداشتہ اور ملول ہوجائیں اور اس طرح وہ شوہر اور اس کے گھرانے کے لوگوں کے لئے بے انتہا مشکلات کا سبب بن جائے؛ کیوں کہ مختلف قسم کی باتیں کرنے والی، بسیار گو اور باتونی عورت جسے وقت کی قدر و قیمت اور فرصت کے اوقات کی اہمیت کا ادراک نہیں ہوتا، وہ اپنی ذمہ داری وقت پر پوری نہیں کرتی، بلکہ ہمیشہ تاخیر کرتی ہے، جس کی وجہ سے کام خراب ہوتے اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
(۷) ’’الکنانہ‘‘ ایسی عورت جو ہمیشہ یہ کہتی ہو کہ ہمارے والد ایسے تھے، ، ویسے تھے، وہ ایسے ایسے کام انجام دیا کرتے تھے، اُن کا یہ مقام و مرتبہ تھا، ان کے پاس اتنی جائداداور مال و دولت تھا۔ ان باتوں کا تذکرہ ایک حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن یہ باتیں کرکے ہمیشہ شوہر اور اس کے گھر والوں کے کان کھینچنا ناپسندیدہ اور غیر معقول بات ہے ؛ کیوں کہ اس سے ایک پریشان کن صورت حال پیدا ہوتی ہے، جو پورے گھرانے کے لئے باعث اذیت ہوتی ہے۔ 
(۸) ’’عشبۃ الدار‘‘ جو گھر کو بدبودار اور تعفن زدہ بنا دے، نہ صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو، نہ ترتیب و تنظیم کا، اپنی صفائی کی فکر ہو نہ بچوں کی، انتہائی درجہ لاپروا اور سست ہو، صفائی ستھرائی کے معاملے سے اس کو نہ کوئی سرو کار ہو اور نہ اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ۔ اس گھاس کی طرح جو کسی گھر میں اُگ کر اس کے منظر کو خراب اور اس کے رنگ روپ کو بگاڑ دے اور پھر لوگ اسے دیکھنے کے بجائے اس سے نظریں چرانے لگیں۔
عورتیں عمدہ اخلاق اور دینی تعلیم و تربیت سے عاری ہونے کی وجہ سے ان خرابیوں میں مبتلا ہوتی ہیں، اگر وہ مکارم اخلاق سے مزین اور آراستہ ہوں تو ان میں یہ خرابیاں پیدا نہ ہوں اور وہ پسندیدہ اور مثالی بیویاں بن جائیں۔
٭…٭…٭

ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !