بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (۴) گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ تحریر: حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؔ رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ ترجمانی: ابنِ سراج قاسمیؔ

5 minute read
1

بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (۴) گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ تحریر: حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؔ رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ ترجمانی: ابنِ سراج قاسمیؔ
اسی وجہ سے عربوں کا کہنا ہے کہ

۱:۔ شادی ایسی لڑکی سے کی جائے، جو اپنے والدین کے زیر سایہ پروان چڑھی ہو اور اس نے اپنی زندگی میں انتہائی بہتر نمونہ رکھنے والے  اول درجہ کے مربی کی حیثیت سے اُن کی خدمت کی ہو، نیز ان سے جاں نثاری، اعلی اقدار اور عمدہ اخلاق حاصل کئے ہوں؛ تاکہ شادی شدہ زندگی میں یہ صفات و کمالات اس کے کام آئیں اور وہ انتہائی حکمت کے ساتھ انھیں برت سکے، وہ ایک مثالی کنبہ کی تشکیل، نیک اولاد کی پرورش و پرداخت، گھر کی تنظیم و ترتیب اور ہر سامان کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر ایک ایسا خوبصورت اور سحر انگیز ماحول پیدا کرے جس سے گھر کے سارے لوگوں کو بے انتہا مسرت حاصل ہو، جسے پڑوسی، دوست و احباب اور رشتہ دار دیکھ کر باغ باغ ہوجائیں۔ 

۲:۔ نیز حتی الامکان بہنوں میں سے بڑی سے شادی کرنی چاہئے؛ کیوں کہ اس نے اپنی زندگی کا کثیر حصہ چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی رعایت میں گذارا ہوتا ہے؛ جس سے وہ یہ بات سیکھ لیتی ہے کہ کنبہ کیسے چلایا جاتا ہے، اولاد کی پرورش کیسے کی جاتی ہے اور اس کے اندر مستقبل میں ایک نیک ماں بننے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، جو اچھے اخلاق اور عمدہ و شریفانہ عادات و اطوار کے ساتھ بچوں کی تربیت کرسکتی اور کنبہ کے افراد کے مابین محبت، تال میل، ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرسکتی ہے۔ 

۳:۔ نیز طاقتور مضبوط اورتجربہ کار لڑکی سے شادی کی جائے، جسے والدین کی معیت میں مختلف مقامات اور شہروں کی زیارت اور سفرکا موقع ملا ہو، جس کی وجہ سے اس کے شعورمیں بالیدگی اور افکار میں پختگی آگئی ہو، ایسی لڑکی فطری طور پر ان لڑکیوں سے فائق ہوگی جنھیں اس قسم کی سرگرمیوں کا موقع نہ ملا ہو اور نہ ہی علم و ثقافت کے حصول اور غور و خوض اور معاینہ کا اہتمام ہوا ہو، کیوں کہ یہ تعلیم یافتہ اور ادب و تہذیب یافتہ لڑکی (درج بالا دیگرصفات و خصوصیات سے متصف ہونے کی صورت میں) اپنے شوہر اور سسرال والوں کی زندگی کو آسان، خوش حال، تکدر سے پاک ،شیرینی و لطافت اور زندگی کی بہاروں سے مزین کردے گی۔ 

۴:۔ نیز لڑکی باحوصلہ ہو؛ تاکہ کامیابیوں کے حصول میں اس کی بہت بڑی مددگار ثابت ہو، نیز بڑے بڑے کاموں کی انجام دہی میں اس کے قدم بہ قدم چل سکے۔ 

 اس سلسلے میں وہ حوصلہ مندی، بڑے بڑے خواب دیکھنے ، بلند و بالا اہداف اور روشن مستقبل کی تمنا سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایسی حوصلہ مند لڑکی شوہر کی نتیجہ خیز اور اہداف حاصل کرنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ 

۵:۔ نیز ایسی لڑکی سے شادی کی جائے جو مرنجا مرنج، شاداں و فرحاں، ہنس مکھ، شگفتہ، خندہ رو اور کشادہ دل ہو، جو زندگی جینے کے فن کو بہت آسان بنادے، جو حیات مستعار کو خاردار قضیہ اور پیچیدہ مسئلہ بنانا نہ جانتی ہو، وہ زندگی کو ہر طرح سے جینا جانتی ہو، وہ اسے کسی بھی طور سے المناک نہ بنائے، ایسی لڑکی اپنے شوہر کے حوصلوں کو پروان چڑھانے کی صلاحیت رکھتی اور اپنے سسرالی لوگوں کی اس سلسلے میں مدد کرتی ہے کہ وہ زندگی کو ٹافی یا چاکلیٹ کی طرح شیریں اور ہلکا پھلکا محسوس کریں نہ کہ ہاتھ میں لگا ہوا کانٹا، حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی، جسم میں رینگنے والا زہر اور روح کو بے چین رکھنے والے کسی درد کی طرح۔ ایسی خاتون اپنے شوہر کے لئے ایک خدمت گار، اس کی روح کے لئے نشاط انگیز، جسمانی بیماری کا علاج کرنے والی، اس کی رائے کو پرکھنے اور زندگی کے تمام اسٹیجوں پر اس کی ہمت افزائی کرنے والی ہوتی ہے۔ 

یقینا بیوی کے خوبصورت طرز عمل اور دانش مندانہ رویہ کی وجہ سے کبھی کبھی بیمار شوہر شفاء یاب، غمزدہ خوش، تنگ دست فارغ البال، تھکا ہوا متحرک و فعال، حرماں نصیب خوش بخت اور لاچار مرفہہ الحال ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بیوی مونس و غم خوار اور مشفق و مہربان ساتھی ہو،وہ سنگ دل، من مانی کرنے والی، نافرمان، زندگی بے کیف کرنے والی، روح کو چھلنی کرنے اور گہرے زخم دینے والی نہ ہو۔

میں نے بہت سے لوگوں کو یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا کہ ہم شادی سے پہلے تندرست، تنومند تھے اور ایک نارمل اور خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے ، ہماری زندگی میں پریشان یا بے آرام کرنے والی کوئی چیز نہیں تھی، لیکن جب سے شادی ہوئی، ہم ٹوٹ گئے اور بیماری کا شکار ہوگئے۔ نہ زندگی کا لطف رہا نہ کھانے پینے کا مزہ ، زندگی شاق اور عذاب بن گئی؛ کیوں کہ ہماری بیویوں نے ہمیں ہر طرح تنگ کیا، ہر پہلو سے ستایا اور زندگی کی تمام سرگرمیوں میں ہماری مخالفت کی، حاصل شدہ چیزوں پر انھیں قناعت نہیں بلکہ جن چیزوں کا حصول دشوار ہے ان کے درپے رہتی ہیں۔ نہ کوئی بات مانتی ہیں نہ نرم گرم برداشت کرتی ہیں، فراخی پر شکر کرتی ہیں نہ کسی نعمت کی قدردان ہیں، میکے میں ان کے والدین کے پاس جو کچھ ہے (خواہ وہ تھوڑا ہی ہو) اس کا تذکرہ کرتی رہتی اور اشتیاق جتاتی ہیں اور ہم کو خدا نے جو نعمتیں اور عمدہ چیزیں عطا فرمائی ہیں (اگرچہ وہ کثیر ہوں ) ان کا تذکرہ نہیں کرتیں۔ جب کوئی کام کرتی ہیں تو احسان جتلاتی ہیں، انھیں ان ضروریات اور اشیاء کی کوئی قدر نہیں جو ہم لاتے ہیں، بلکہ ان کے مطالبات کی فہرست دن بدن اور پیہم بڑھتی ہی جاتی ہیں، ہمارے گھروں کی چیزوں کو تو معمولی، ہلکا اور کم سمجھتی ہیں اور پڑوسیوں کے سامانوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، ہم جو خریداری کرتے ہیں اس کو سستا گردانتی ہیں اور دوسروں کے سامان، زیور، برتن ، گھر ، مکان اور کپڑوں تک کو قیمتی سمجھتی ہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
  1. عمدہ اخلاق و صفات کی حامل بچیاں گھر کو جنت کا نمونہ کیسے بنا سکتی ہیں؟ حضرت مولانا ان صفات و اخلاق کا تذکرہ کیا اور والدین کو اولاد کو عمدہ تربیت کی ترغیب دی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !