بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (۲)

3 minute read
0


بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن

میرے گاؤں میں ایک بوڑھی خاتون اور ان کے بوڑھے شوہر رہا کرتے تھے، جب سے ہوش سبنھالا، تب سے انہیں جانتا ہوں، کہولت( ادھیڑ عمری) کے بعد ان دونوں نے بڑھاپے میں قدم رکھا۔ میں نے جب بھی میاں بیوی کی حیثیت سے ان کے رویے کامشاہدہ کیا،مجھے ان کی خوش حال ازدواجی زندگی پررشک آیا، شوہر ہمیشہ خوش و خرم رہتا، بیوی کو  دیکھ کر مسکراتا، خندہ پیشانی سے پیش آتا،جب جب دور یا نزدیک سے لوٹتا سلام کرنے میں پہل کرتا ،بیوی بھی اسی طرح بشاشت اور بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کرتی، گویااس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے پائی ہو، شوہر کسی بھی جگہ سے گھر لوٹتا ، تو وہ سب کام چھوڑ کر اس کے لیے پانی اور رومال یا تولیہ لے کر آتی، پیر دھوتی اور تولئے سے پونچھتی اور چلنے یا زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے آنے والی تکان دور کرنے کے لیے اس کے پیر دباتی۔ خاص کرکہولت اور بڑھاپے میں دونوں فراغت اور عائلی ذمہ داریوں سے فرصت کے اوقات میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے اورہر چھوٹے بڑے معاملہ میں ہمیشہ مشورہ کرتے، ہر ایک کو دوسرے کی خوشی منظور ہوتی، میں نے کبھی انہیں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی ایک کی آواز دوسرے پر بلند ہوئی، میں اپنے شعوری بچپن میں بھی -جب میں میاں بیوی کا مطلب نہیں جانتا تھا - انھیں اسی خوش و خرم حالت میں دیکھتا تھا اورمیں سوچتا تھا کہ یہ دونوں کتنے اچھے جوڑے اورکتنے اچھے انسان ہیں۔
اس احساس کی وجہ یہ تھی کہ میرے پڑوس میں ایک دوسری فیملی رہتی تھی، جہاں شوہر اپنی بیوی سے ہمیشہ لڑتا جھگڑتا تھا، بیوی کے دل میں اس کے لیے ذرا بھی احترام نہیں تھا، وہ نہ شوہر کی پروا کرتی، نہ اس کی کوئی بات سنتی، نہ اس کی آواز پر  لبیک کہتی، نہ اس کا کہا مانتی، نہ خدمت کرتی ، نہ کوئی بات تسلیم کرتی، بیمارپڑنے پراس کی خدمت کرتی نہ تھکن سے چورہونے پر آرام پہنچاتی، پریشانی اور الجھن کے وقت میں پرسکون ماحول فراہم کرتی، نہ اس کے کھانے اور سونے کے اوقات کی رعایت کرتی، شوہر غم زدہ ہو تو تسلی نہیں دیتی اورخوش ہو تو اس کی خوشی میں شریک نہیں ہوتی، شوہر کو مشورہ اور تبادلۂ خیال کی ضرورت ہوتی،  تو بھی کنی کاٹ جاتی، یعنی کہیں سے کہیں تک وہ اس کی بیوی لگتی ہی نہیں تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرے رشتہ داروں میں ایک لڑکی تھی جو تواضع، انکساری ، صبر وتحمل اوربردباری کی مثال تھی، اس کی والدہ سریع الغضب اور معمولی بات پر مشتعل ہوجانے والی خاتون تھیں، جس کی وجہ سے چھوٹی سے چھوٹی غلطی سرزد ہونے پربھی زبردست ڈانٹ ڈپٹ کرتیں، لیکن وہ بچی ہمیشہ مسکراتی رہتی اور ماں کی ملامت اورجھڑکیوں کو عمدہ طریقے سے جھیلتے ہوئے اس کی کامل رضا کی طلب گار رہتی اوریہ سمجھتی کہ یہ آداب زندگی سکھانے کے لیے ہے اور یہ جھڑکیاں ماں کی اس پر توجہ اور فضل و احسان  کی علامت ہے، اس طرح اس نے اپنے آپ کو ناپسندیدہ باتوں پر صبر کرنے، بڑوں کی نصیحتوں پر لبیک کہنے، ذمہ دار کی بات ماننے، طبیعت پر گراں اورنفس پر شاق گزرنے والے معاملات پیش آنے کے وقت تحمل و برداشت کا عادی بنالیا، جس کی وجہ سے آئندہ شادی شدہ زندگی میں اس کو بہت نفع حاصل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !