بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (۳)

7 minute read
1


بناتِ حوا: گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن (۳)

 اس کی شادی قریب کی ایک بستی میں ہوئی، جہاں جاتے ہی وہ اپنے حسن اخلاق، احکام کی بجا آوری، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اورتمام کاموں میں تہذیب و شائستگی کی وجہ سے ان کی عقلوں پر چھا گئی ، چھوٹے بڑے سب اس کے گرویدہ ہوگئے، سب اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے، اپنی حقیقی بیٹیوں اوربہنوں سے بھی زیادہ؛ کیوں کہ وہ بے نظیر خصوصیات اِس کی پاسنگ بھی نہیں تھیں۔
شادی کے بعد موت نے اسے زیادہ مہلت نہیں دی اور شادی کے صرف دوسال بعد اس کا انتقال ہوگیا، پورا گھرانہ اس پر اتنا رویا کہ لوگ اپنے حقیقی بھائیوں اور بہنوں کے انتقال پر کیا روتے ہوں گے۔
انتقال کے کچھ سالوں بعد مجھے کسی ضرورت سے اس کے سسرالی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا، میں اس سڑک سے گزر رہا تھا، جس کے پاس اس کا سسرالی مکان تھا، اتنے میں اچانک اس کے خسر نے مجھے بآواز بلند سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دیا اور بہو کے انتقال کے بعد کے حالات دریافت کئے، تو وہ رونے لگے، اس بچے کی طرح جس کے ہاتھ سے کوّے نے روٹی کا ٹکڑا یا ٹافی جھپٹ لی ہو، وہ دھاڑیں مار کر مسلسل روئے جارہے تھے۔
میں نے انھیں دلاسہ دیا اور کہا کہ وہ اللہ کی امانت تھی ،جسے اللہ نے واپس لے لیا ،یہ دنیا تغیر پذیر ہے ،اللہ رب العزت ہمیں خوشی اور غم دے کر آزماتے ہیں ،لہٰذا آپ صبر کیجئے اور ثواب کی امید رکھئے،مگر میں جب تک ان کے پاس تھا، وہ روتے ہی رہے، دوران گفتگو کہنے لگے : میں نے اس جیسی لڑکی نہ دیکھی نہ سنی،شادی کے بعد جب وہ ہمارے گھر آئی،تو گھر برکت، خوشی،آسودہ حالی اور فراخی سے بھر گیااور جب دنیا سے گئی توہمیں مفلوک الحال،بد بختی کا شکار اور محتاج وتنگ دست چھوڑگئی۔میری تمنا ہے کہ اللہ رب العزت مسلم گھرانوں کو ایسی بیٹیاں عطا فرمائیں جو تھوڑا ہی سہی ان صفات کی حامل ہوں جن سے وہ مزین تھی اور جن کی وجہ سے وہ زمانہ میں یکتا موتی کی مثال تھی۔
میں نے ان سے عرض کیا: موت ایسے لوگوں کو زیادہ مہلت نہیں دیتی، جلد ہی جوار رحمت میں پہنچادیتی ہے،اللہ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کواس عظیم سانحے اور جانکاہ غم پر دنیا و آخرت میں بھر پور اجر دے گا؛کیونکہ مومن کو جوبھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ رب العزت اس کے مناسب اجرو ثواب عطا فرماتے ہیں۔
میں جب ان سے رخصت ہوا، وہ تب بھی رورہے تھے اور ان پر قلبی رنج و غم کے آثار نمایاں تھے، میں نے سوچا! اگر تمام لڑکیاں اپنی شادی شدہ زندگی میں اُس لڑکی کی طرح ہوجائیں، تو ان کی سسرال ان کے لیے جہنم نہ بنے، جس سے وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتی ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ سسرالی لوگ تاصبحِ قیامت بہوؤں سے لاڈ پیار کرہی نہیں سکتے اورنہ ہی انھیں عزت و احترام مل سکتا ہے، جب کہ سارا قصور شوہر کے گھر والوں کا نہیں ہوتا؛ بلکہ ذمہ داری ان بہوؤں کی بھی ہوتی ہے جو قبل از نکاح اپنے گھروں میں آداب زندگی ، حسنِ معاشرت ، حسن اخلاق نہیں سیکھتیں، حالاں کہ اگر وہ آداب و صفات کو سیکھیں اور ازدواجی زندگی میں انھیں برتیں، تو ان کی زندگی خوش و خرم گذرے، خیرہی خیرہو اور زندگی کے آخری لمحے تک خوشگوار زندگی گذرے۔
وہ صفات جن سے متصف ہوکر کوئی بھی خاتون مثالی بیوی بن سکتی ہے، ان میں سرفہرست اخلاق ہے؛ کیوں کہ یہ تمام خوبیوں کی جڑہے، جو بھی اس سے متصف ہوتا ہے، وہ عند اللہ محبوب اور عند الناس مقبول ہوجاتا ہے، بروز قیامت حسن اخلاق کی وجہ سے اس کا میزان بھاری اور اجروثواب دوچند ہوجائے گا، حسن اخلاق بہترین عمل ہے، جس سے عمر میں برکت ہوتی اور ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ 
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اس شخص کے لئے جنت میں ایک گھر کا ضامن ہوں، جو لڑائی، جھگڑے چھوڑ دے، اگر چہ وہ حق پر ہو۔ اور جنت کے بیچ و بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لئے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، اگرچہ ہنسی مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔ اور جنت کی بلندی پر ایک گھر کا اس شخص کے لئے ضامن ہوں، جو خوش اخلاق ہو۔ (ابوداود:۴۸۰۰) 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والی چیز کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کا ڈر اور حسن اخلاق۔ (ترمذی:۲۰۰۴) 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اللہ کا سب سے محبوب بندہ، سب سے عمدہ اخلاق والاہے۔ (حاکم:۸۲۱۴) 
ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:روز قیامت مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے، جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔ (ترمذی:۲۰۱۸) 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے لوگوں کے درجات کو پا لیتا ہے۔ (ابوداود:۴۷۹۸) 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر سے ارشاد فرمایا:ابوذر!کیا میں تمہیں ایسی عادتیں نہ بتاوں، جن کی ادائیگی آسان ہے اور میزان میں سب سے زیادہ وزنی ہیں؟ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!کیوں نہیں۔ ضرور بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم حسن اخلاق اور طویل خاموشی کو لازم پکڑ لو؛ کیوں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، مخلوقات نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو ان دونوں کے برابر ہو۔ (ابو یعلی:۳۲۹۸) 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:حسن اخلاق اور حسن جوار (پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک)گھروں کی آبادی اور عمر میں اضافہ کا سبب ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے کامل ایمان والاوہ ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرے۔ (ترمذی:۱۱۶۲) 
حسن اخلاق کی حامل خاتون شوہر اور اس کے گھرانے کے لوگوں کا دل جیت لیتی ہے اور وہ ان کی نگاہوں میں محبوب و پسندیدہ بن جاتی ہے ، وہ مشکلات اور دشوار حالات پر صبر کرتی اور سسرال کے لوگوں کا غم بانٹتی ہے اور جیسے وہ خوشی و مسرت میں ان کی شریک کار ہوتی ہے، اسی طرح غم و آلام میں ان کے دوش بدوش رہتی ہے، پھر وہ بشمول شوہر ہر فرد کے ساتھ ایسا عمدہ برتاؤ کرتی ہے، جس سے حسن اخلاق سے عاری اور اسلامی آداب سے ناواقفیت کے ساتھ پروان چڑھنے والی خواتین نا آشنا ہوتی ہیں۔ 
وہ تمام معاملات میں کشادہ قلبی، رضا جوئی، وسعت اخلاق، توکل علی اللہ اور خود اعتمادی کو بروئے کار لاتی ہے؛ چناں چہ وہ ہمیشہ شاداں و فرحاں نظر آتی ، ہر ایک کو آرام پہنچاتی اور ہر ذمہ داری کو انتہائی خوش دلی کے ساتھ انجام دیتی ہے۔ 
اگر اسے فراخی، مالداری، عیش و آرام اور طرح طرح کی سہولیات میسر ہوتی ہیں، تو وہ اپنے رب کی شکر گذاری کرتی اور جن کی محنت و تدبیر، کدوکاوش اور پسینہ بہانے سے یہ اسباب مہیا ہوئے ہیں، ان کی بھی ثنا خوانی کرتی ہے اور اگر تنگدستی، نامرادی اور اسباب و وسائل کی کمی کا سامنا ہوتا ہے، تو صبر کا دامن تھامتی اور قناعت کی چادر میں پناہ لیتی ہے اور حالات کے تقاضے کے مطابق میانہ روی، کفایت شعاری اور عسرت و تنگدستی کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر زندگی گذارتی ہے۔ 
جو لڑکی والدین کے پاس یہ آداب سیکھتی ہے کہ شادی کے بعد وہ شوہر کو کیسے خوش رکھے، سسرال کے لوگوں کو کیسے مطمئن کرے اور ان کی نگاہوں میں کس طرح محبوب و پسندیدہ بنے، وہ شادی شدہ زندگی کامیابی، بامرادی اور خوشی و مسرت کے ساتھ گذارتی ہے۔ اسے زندگی کے پورے سفر میں کسی ایسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوتا، جو زندگی کو بے لطف کردے اور نہ ہی زندگی کے اس طویل سفر میں وہ ناکامی و نامرادی سے دوچار ہوتی ہے؛ باوجودیکہ حالات انسان کے لئے ہمیشہ سازگار نہیں ہوتے۔ 
جو لڑلی اپنے والدین کے پاس اطاعت و فرماں برداری سیکھ لیتی ہے، وہ شوہر اور اس کے خاندان کے لوگوں کے دل میں گھر کر لیتی ہے؛ اس لئے کہ اطاعت و فرماں برداری میدان حیات کے سب سے کارگر ہتھیار ہیں، جو اسے اپناتا ہے یقینی طور پر فتح یابی اس کے ہم رکاب ہوجاتی ہے اور کوئی بھی لشکر اسے شکست و ہزیمت سے دوچار نہیں کرسکتا، خواہ وہ جنگ کرنے، دشمن کو زیر کرنے اور معرکہ جیتنے میں کتنا ہی ماہر اور بے مثال کیوں نہ ہو۔ 
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
  1. حضرت مولانا نور عالم خلیل امینیؔ رحمۃ اللہ علیہ نے عمدہ صفات و اخلاق کی حامل بچی کا واقعہ نقل کیا ہے، واقعی اس حوالے سے والدین کا اہم رول ہوتا ہے۔ اگر والدین توجہ دیں، تو ان کی اولاد بھی مذکورہ بچی جیسی صفات کی حامل بن سکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !