جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ: تحریر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ : ترجمہ ابن سراج قاسمیؔ

7 minute read
0

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

ہم لوگوں کے ساتھ جیسا برتاؤ کرتے ہیں، اسی طرح کے برتاؤ کی ہمیں امید ہوتی ہے۔ لیکن لوگ زیادہ تر ہم سے ہماری امید کے مطابق برتاؤ نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنا من چاہا رویہ اختیار کرتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ انتہائی بشاشت اور گرم جوشی کا معاملہ کرتے ہیں۔ لیکن وہ ہم سے اس طرح کا برتاؤ نہیں کرتا۔ بلکہ خوش مزاجی کے بجائے ترش روئی اور بدمزاجی سے پیش آتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کے تئیں مخلص ہوتے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے ساتھ اس جیسا دوستانہ تعلق نہیں رکھتا اور نہ ہماری طرح مخلص ہوتا ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
ضروری نہیں ہے کہ تم جسے چاہو، اس کا دل بھی تمہاری طرف مائل ہو۔ اور تم جس کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھو، وہ بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی تعلق رکھے۔ 
اللہ رب العزت نے لوگوں کی طبیعتیں مختلف بنائیں ہیں اور ہماری رہنمائی اس حکیمانہ طرز کی طرف فرمائی، جسے اس نے ہمارے لیے پسند کیا، تاکہ ہم خوش و خرم رہ کر خیر و عافیت کے ساتھ پرسکون زندگی گزاریں۔
ارشاد خداوندی ہے: بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو، جب یہ طرز اختیار کروگے، تو وہ شخص کہ تمہارے اور اس کے درمیان دشمنی ہے، جگری دوست کے مانند ہوجائے گا۔ (فصلت:۳۴)۔
 بدسلوکی کا جواب احسان کے ساتھ دینا وہ حکمت الٰہی اور لطیف وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسانی معاشرے کے وجود کو کھوکھلا کردینے والی اور انسانی زندگیوں کو ناقابل برداشت اذیت میں تبدیل کردینے والی بہت سی برائیوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں، جن کی جبلت میں ایسے نامعقول اطوار ہوتے ہیں جن کی اصلاح ہمارے بس میں نہیں ہوتی، لہٰذا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا کہ ہم صبر کریں، ثواب کی امید رکھیں اور معاملہ خدا کے سپرد کر دیں، یا انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے الگ ہو جائیں۔
 ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی غلطیوں کو آخری حد تک برداشت کرتے اور ان کے ساتھ لطف و نرمی سے پیش آتے اور لوگوں کی ایذا رسانی برداشت کرکے ان کے ساتھ معافی اور درگذر کا برتاؤ کرکے دلوں کو مسخر کرلیا کرتے تھے۔
ایک اعرابی آپ صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ علیہ السلام سے ایک مقتول کی دیت کے سلسلے میں مدد کے طالب ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کچھ عطا کیا، پھر ان سے فرمایا: میں نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا! اعرابی نے کہا:نہیں، نہ تو آپ نے اچھا کیا نہ بہتر کیا۔ اس پر کچھ مسلمان غصے میں آگئے اور اس کی طرف لپکنا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے اور اعرابی کو اپنے گھر بلایا اور فرمایا: تم ہمارے پاس آئے اور ہم سے مانگا تو ہم نے تمہیں دیا، تو تم نے ایسا ایسا کہا۔ پھر آپ نے اپنے گھر میں جو کچھ ملا، اس میں سے اسے عطا فرمایا اور پوچھاکہ میں نے تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ہے؟ اعرابی نے کہا: ہاں، اللہ تعالیٰ آپ کو اہل و عیال اور قبیلہ والوں کی طرف سے نیکی عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہمارے پاس آئے، اور ہم نے تمہیں دیا، تو تم نے ایسا ایسا کہا اور میرے ساتھیوں کے اندر تمہاری اس بات کی وجہ سے کچھ (ناگواری) ہے، لہذا جب تم ان کے پاس پہنچنا، تو وہی بات کہنا جو ابھی میرے سامنے کہی ہے، تاکہ ان کے دلوں سے وہ (ناگواری) دور ہوجائے۔ چنانچہ جب وہ اعرابی مجلس میں آئے، توآپ نے فرمایا: تمہارا ساتھی ہمارے پاس آیا اور ہم سے سوال کیا تو ہم نے اسے دیا، تو اس نے وہ کہا جو کہا۔ پھر ہم نے اسے بلایا اور مزید دیا، جس کے بعد وہ خوش ہوگیا۔ پھر آپ اعرابی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کیا ایسا ہی ہے؟ اعرابی نے کہا: جی ہاں، خدا آپ کو اہل و عیال اور قبیلہ والوں کی طرف سے نیک بدلہ دے۔ پھر جب اعرابی نے اپنے گھر جانے کا ارادہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو دلوں کو جیتنے اور لوگوں کو خوش کرنے کا سبق دینا چاہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میری اور اس اعرابی کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے پاس ایک اونٹ تھا جو اس سے بھاگ نکلا ، لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگے، وہ خوف زدہ ہو کر ان سے دور بھاگا۔ ان لوگوں کے پیچھا کرنے کی وجہ سے وہ مزید بدک گیا۔ اونٹنی کے مالک نے کہا: مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو۔ میں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں گا اور میں اسے جانتا ہوں۔ چنانچہ اونٹنی کا مالک اس کے پاس گیا، اس کے لیے زمین سے کچھ چارہ اٹھایا، یہاں تک کہ اونٹنی اس کی بات پر لبیک کہتے ہوئے اس کے پاس آگئی۔ چنانچہ اسے نے اس پر اپنا کجاوہ باندھا اور سوار ہوگیا۔
 جس وقت اس (اعرابی) نے وہ بات کہی (جس سے آپ حضرات کو ناگواری ہوئی) اس وقت اگر میں آپ حضرات کی بات مان لیتا، تو یہ آگ کا ایندھن بن جاتا۔ (البزار:۸۷۹۹)۔
اور طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف قبیلے کی جانب سے اس وقت انتہائی سخت رویوں کا سامنا کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی حمایت و تائید حاصل کرنے نکلے تھے۔ انھوں نے اوباشوں کی ایک ٹولی کو آپ کے پیچھے لگادیا، جو آپ کے پیچھے لگ گئے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھٹھا کرتے، نازیبا گفتگو کرتے اور آپ کو پتھر مارتے، یہاں تک کہ آپ کا جسم لہولہان ہوگیا، پاؤں سے خون بہنے لگا۔
پھر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے ایک باغ کے سایہ میں پناہ لی، آپ انتہائی غمگین اور شکستہ خاطر تھے، پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور اپنے رب سے آہ و زاری کرنے لگے :
’’اے اللہ میں تجھ سے اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے وقعتی کی شکایت کرتا ہوں۔ اے سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! تو کمزوروں کا رب ہے، تو ہی میرا رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے؟ کسی اجنبی کے جو میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جسے تونے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہو؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت میرے لیے بہت وسیع ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوئیں اور جس سے دنیا و آخرت کا معاملہ درست ہوا اس بات سے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیری ناراضگی مجھ پر اترے۔ مجھے تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو راضی ہو جائے۔ تیری ہی بخشی ہوئی توفیق سے نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت نصیب ہوتی ہے۔‘‘
آپ علیہ الصلاۃ و السلام ابھی گریہ و زاری کی اسی حالت میں تھے کہ آپ کے سر پر بادل کا ایک ٹکڑا سایہ فگن ہوا، جس میں سے جبریل علیہ السلام نے آپ کو پکارا: اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ رب العزت نے آپ کی قوم کی وہ بات سنی جو انھوں نے آپ سے کہی، اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ اہل طائف کے بارے میں جو چاہیں ، اسے حکم دیں، پہاڑوں کا فرشتہ کہنے لگا: اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں، (جن کے درمیان یہ قوم آباد ہے) اور وہ یہ کہہ کر آپ کے حکم کا انتظار کرنے لگا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، مجھے امید ہے کہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔‘‘ (کنز العمال:۳۶۱۳) 
سیرت نبوی سخت اور مشکل رویوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد خواہوں اور مجرموں کو معاف کیا اور ان کے لیے نیکی اور رہنمائی کی دعا کی، وہ ایسے رویے اور حالات تھے کہ آپ کے سوا کوئی بڑے سے بڑا حلیم و بردبار شخص بھی ان کا تحمل نہیں کر سکتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے قول اور فعل دونوں میں ایک عمدہ نمونہ چھوڑا ہے، جہاں تک ہو سکے، ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہئے، جس سے ہم معاشرے کو ایک جنت نظیر اور خوشی و مسرت سے بھرپور، پھولوں سے لدے باغ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ (من وحي الخاطر،مقابلۃ الاساء ۃ بالاحسان: ۵)

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !