![]() |
سورہٴ اخلاص کے فضائل |
سورہٴ اخلاص( قل ہو اللہ احد الخ) قرآن کریم کی ایک عظیم الشان مختصر ترین سورت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی احدیت، صمدیت، اس کے یکتا اوربے نظیر ہونے کو انتہائی جامع پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ احادیث میں اس کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور مغرب کی سنتوں اور وتر کی نماز میں دوسری سورتوں کے ساتھ سورہٴ اخلاص کثرت سے پڑھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں بتا نہیں سکتا ہوں کہ میں نے کتنی بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتوں اور نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں میں ’’ قل یٰایہا الکفرون‘‘ اور’’ قل ہو اللّٰہ احد‘‘پڑھتے ہوئے سنا۔(الجامع للترمذي، رقم الحدیث:۴۳۱)
اور نسائی کی روایت میں اس کی بھی تصریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ’’ سبح اسم‘‘ دوسری میں ’’قل یٰایہا الکفرون‘‘اور تیسری میں ’’ قل ہو اللّٰہ احد‘‘پڑھتے تھے۔( النسائی ،رقم الحدیث:۱۶۹۹)
لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اولاً سورہٴ اخلاص کا آسان ترجمہ کردیا جائے اورپھر اس کے فضائل کے سلسلے میں مروی چند احادیث کا ذکر، آیات لکھنے کے بجائے صرف ان کے ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے، اورمختصر تشریح کو بین القوسین’’()‘‘ سے واضح کردیا گیا ہے، ترجمہ وتشریح ’’ توضیح القرآن‘‘ مسمٰی بہ’’ آسان ترجمۂ قرآن‘‘ از حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب دامت برکاتہم سے منقول ہے:
(بعض کافروں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ اس کا حسب نسب بیان کرکے اس کا تعارف تو کرائیے، اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی) کہہ دو بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔(’’ ہر لحاظ سے ایک‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس طرح ایک ہے کہ اُس کے نہ اجزاء ہیں، نہ حصے ہیں اور نہ اُس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں، وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے اور اپنی صفات میں بھی) اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔( ’’صمد‘‘ اس کو کہتے ہیں، جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لیے رجوع کرتے ہوں اور سب اس کے محتاج ہوں اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔( یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے) اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں۔( یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اس کی برابری یا ہم سری کرسکے۔)
اب اس مبارک سورت کی فضیلت کے سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر رات ایک تہائی قرآن پڑھ لیا کرو، صحابۂ کرام کو یہ بات مشکل معلوم ہوئی اور انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ الواحد الصمد‘‘( قل ہو اللّٰہ احد) ایک تہائی قرآن کے برابر ثواب رکھتا ہے۔( بخاری شریف ، رقم الحدیث:۵۰۱۵)
حضرت اسماء بنت واثلہ بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد کا معمول تھا کہ صبح کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سورج نکلنے تک قبلہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے رہتے تھے، بعض دفعہ مجھے ان سے بات کرنے کی ضرورت پیش آتی، تو بھی آپ مجھ سے نہیں بولتے، میں نے ( ایک مرتبہ) پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی صبح کی نماز کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے سو بار قل ہو اللہ احد پڑھے، اس کے ایک سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔( المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث:۶۴۲۷، وفي الہامش: حذفہ الذہبي من التلخیص)
ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایک دن میں دوسوبار ’’قل ہو اللّٰہ احد‘‘ پڑھی، تو قرض کے سوا اس کے پچاس سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (الجامع للترمذی ، رقم الحدیث:۲۸۹۸، قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث غریب من حدیث ثابت عن أنس، وقدرُوِي ہذا الحدیث من غیر ہذا الوجہ أیضاً عن ثابت)
ایک دوسری حدیث میں حضرت انسؓ ہی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم نے اپنے بستر پر لیٹ کر ’’سورہٴ فاتحہ اور قل ہو اللہ احد ‘‘پڑھ لی، تو موت کے علاوہ ہر چیز کے شر سے محفوظ ہوگئے۔ (یعنی کوئی چیز تم کو نقصان نہیں پہنچاسکتی) (أخرجہ البزار، رقم الحدیث:۷۳۹۳)
اللہ رب العزت سورہٴ اخلاص کو حرز جان و وردزبان بنانے اور قرآن کریم کے انوار و برکات اورفضائل و محاسن سے دامن دل بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آگاہی: احادیث میں ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ یا دیگر اذکار کی خاص خاص مقدار پر گناہوں کے معاف ہونے کا جو ذکر ہے، علماء، مفسرین اور شراح حدیث کے نزدیک اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں۔ (اس سلسلے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نے بھی ’’ فضائل اعمال‘‘ میں موجود اپنے رسالہ ’’ فضائل رمضان‘‘ میں عمدہ بحث کی ہے) ؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ’’ معارف القرآن‘‘ میں ’’ إن الحسنات یذہبن السیئات‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ یعنی نیک کام مٹادیتے ہیں برے کاموں کو۔ حضرات مفسرین نے فرمایا کہ’’ نیک کام‘‘ سے تمام نیک کام مراد ہیں، جن میں نماز، روزہ، زکاۃ، صدقات، حسن خلق، حسن معاملہ وغیرہ سب داخل ہیں، مگر نماز کو ان سب میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح ’’ سیئات‘‘ کا لفظ تمام برے کاموں کو حاوی اورشامل ہے، خواہ وہ کبیر ہ گناہ ہوں یا صغیرہ؛ لیکن قرآن مجید کی ایک دوسری آیت نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، معنی یہ ہیں کہ نیک کام جن میں نماز سب سے افضل ہے، صغیرہ گناہوں کا کفارہ کردیتے ہیں، اور ان کے گناہ کو مٹادیتے ہیں، قرآ ن کریم میں ہے:’’ ان تجتنبوا کبائر ماتنہون عنہ نکفر عنکم سیئاتکم‘‘ یعنی اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو، تو ہم تمہارے چھوٹے گناہوں کا خود کفارہ کردیں گے۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اورایک رمضان دوسرے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں، جو ان کے درمیان صادر ہوں، جب کہ یہ شخص کبائر یعنی بڑے گناہوں سے بچار ہا ہو، مطلب یہ ہے کہ بڑے گناہ تو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، مگر چھوٹے گناہ دوسرے نیک کام نماز، روزہ صدقہ وغیرہ کرنے سے خود بھی معاف ہوجاتے ہیں، مگر تفسیر بحر محیط میں محققین علماء ِاصول کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صغیرہ گناہ بھی نیک کام کرنے سے جبھی معاف ہوتے ہیں جب کہ آدمی ان کے کرنے پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا ارادہ کرے، ان پر اصرار نہ کرے، روایات حدیث میں جتنے واقعات کفارہ ہوجانے کے منقول ہیں، ان سب میں یہ تصریح بھی ہے کہ ان کا کرنے والا جب اپنے فعل پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے توبہ کرے ، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گناہ معاف ہوجانے کی بشارت سنائی، واللہ اعلم ۔( معارف القرآن:۴؍۶۷۷، سورئہ ہود)
٭…٭…٭