![]() |
(۱) سنن و نوافل: آداب و احکام |
اللہ رب العزت نے بنی نوعِ انسان کو اپنی عبادت کا مکلف بنا کر کائنات کی تمام چیزوں کو اس کی خدمت میں لگادیا، یہ دن و رات کا نظام، سورج کا چڑھنا اور ڈھلنا، چاند کا پھیلنا اور سکڑنا، زمین کا غلہ جات اُگانا، مختلف قسم کے معدنیات نکالنا، بادل کا کڑکنا، گرجنا اور برسنا، آسمان کی نیلگوں چھتری، زمین کا ناپیدا کنار بستر، یہ چرند، یہ پرند، یہ پھول پتے، یہ آب و دانہ، یہ پہاڑوں کے اُبھار، یہ دریاؤں کی مستانہ چال، …یہ … یہ… وان تعدوا نعمۃ اللہ لاتحصوہا۔(سورۃ النحل:۱۸) اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شمار کسی کے بس میں نہیں۔
نماز: ہم خرما و ہم ثواب
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون‘‘ (سورۃ الذاریات :۵۶) ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
عبادتوں میں سب سے مہتم بالشان عبادت نماز ہے، جس کو عطا کرنے کا انداز نرالا ہے کہ آسمانوں پر اپنے پاس بلا کر عطا کی گئی، جس کے ملنے پر صحابہ کرام نے خوشیاں منائیں، جس میں آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور بندوں کے پاس رب سے راز و نیاز کی باتیں کرنے اور مانگنے کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔
سنن و نوافل
فرائض کے علاوہ احادیث میں بہت سی سنن و نوافل کی ترغیب، ان کی ادائیگی پر اجرو ثواب اور فضیلت کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے کچھ فرض نمازوں سے پہلے پڑھی جاتی ہیں، کچھ فرض نمازوں کے بعد، کچھ نفلیں دیگر مخصوص اوقات میں ادا کی جاتی ہیں اور کچھ نوافل ایسی ہیں، جن کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں، اوقاتِ مکروہہ کے علاوہ انھیں کبھی بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
ان میں سے جن سنتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اہتمام فرمایا اور بلاعذر کبھی ترک نہیں کیا، انھیں سنتِ مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ بلاعذر ان کا چھوڑنے والا گنہ گار ہوگا۔
بعض سنتیں وہ ہیں، جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہتمام نہیں فرمایا، بلکہ کبھی کبھی بلاعذر ترک بھی فرمادیا، انھیں سننِ غیر مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کو ادا کرنے والا اجر و ثواب اور فضیلت کا مستحق ہوگا اور نہ پڑھنے والے کو نہ ثواب ہوگا، نہ عقاب۔ البتہ اس کے اجر و ثواب سے محروم رہنا بذاتِ خود بڑے نقصان اور خسارے کی بات ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ کی اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا بھی اہتمام کرکے دامنِ مراد موتیوں سے بھر لیا جائے۔
سننِ مؤکدہ کے اہتمام پر خوش خبری
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی دن رات میں بارہ رکعتیں ادا کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (رواہ مسلم ، رقم الحدیث:۷۲۸) اس سے مراد فرض نماز کے علاوہ دوسری نمازیں، یعنی سنن مؤکدہ ہیں۔ یہ بارہ رکعت سنن موکدہ یہ ہیں : فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ،ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار اور ظہر کے فرض کے بعد دو رکعتیں، مغرب کی نماز کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کی نماز کے بعد دو رکعتیں، یہ کل بارہ رکعتیں ہوگئیں، یہ تفصیل خود احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی گئی ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو پنج وقتہ فرض نمازوں کے ساتھ ان سنتوں کابھی ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔
راویان ِ حدیث کا جذبہ اتباع
مسلم شریف میں جہاں یہ روایت موجود ہے، وہیں رواۃ حدیث کی یہ گفتگو بھی مذکور ہے کہ راوی حدیث عنبسہ بن ابی سفیان ؒفرماتے ہیں کہ اس روایت کو بیان کرکے حضرت ام حبیبہ ؓ فرماتی تھیں کہ میں نے جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سنتوں کی فضیلت سنی ہے، کبھی انہیں ترک نہیں کیا اور عنبسہ بن ابی سفیان ؓسے اس حدیث کو نقل کرنے والے عمروبن اَوس ؒفرماتے ہیں کہ عنبسہ ؒفرماتے تھے جب سے میں نے حضرت ام حبیبہ ؓ سے یہ روایت سنی ہے، کبھی ان سنتوں کو نہیں چھوڑ ا، اور عمرو بن اَوس ؒکا عمل نعمان بن سالم ؒیہ نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن اَوس ؒفرماتے تھے کہ میں نے جب سے عنبسہ سے یہ روایت سنی ہے، ان سنتوں کو نہیں چھوڑا اور نعمان بن سالم ؒکا عمل اس روایت کے اگلے راوی داود بن ابی ہند، یہ نقل کرتے ہیں کہ نعمان بن سالم ؒفرماتے تھے کہ میں نے جب سے عمرو بن اَوس ؒسے یہ حدیث سنی ہے ،اس وقت سے ان سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔(مسلم: ۷۲۸)
اندازہ لگایئے ان حضرات کے جذبہ اتباع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے ان کی محبت کا کہ جو سن لیا، اسے اپنی زندگی کا معمول بناکر اپنے سینے سے چمٹالیا۔ یہی جذبہ ہر مسلمان کا ہونا چاہیے۔
جاری ................................................................................................