جمہوریت ایک تعارف: از قلم حضرت مولانا عبد اللہ فضل صاحب معروفی استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم، گورینی، جون پور

4 minute read
0

 جمہوریت ایک تعارف

 از قلم حضرت مولانا عبد اللہ فضل صاحب معروفی استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم، گورینی، جون پور

!الحمدللہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، امابعد

محترم اساتذہ کرام عزیز ساتھیو اور معزز حاضرین!آج کے اس اہم پروگرام میں، مجھے ایک ایسے نظام کا تعارف پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے، جو دنیا کے کئی حصوں میں حکومت، اختیار اور عوام کی شراکت داری کا محور ہے۔ یہ نظام، جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آئیے، اس کی حقیقت اور اس کے بنیادی خاکے کو سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ اس کے عملی دائرہ کار کا ایک واضح نقشہ ہماری نظروں کے سامنے آجائے۔

محترم حضرات! جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ "democracy کا ترجمہ ہے۔ انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے آیا ہے، جہاں “demo” کا مطلب عوام اور “cracy” کا مطلب حاکمیت یا حکمرانی ہے۔ اس لحاظ سے جمہوریت کا مطلب ہے "عوام کی حکمرانی"۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے، جو اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے کہ حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔

سامعین کرام! جمہوریت دراصل ایک ایسا نظام حکومت ہے جس کی بنیاد عوام کے اشتراک، مشاورت اور رائے دہی پر ہوتی ہے۔ اس نظام میں حکومت کا قیام اور اس کا تسلسل عوام کے فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔ ہر فرد کو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم، مذہب، طبقے یا زبان سے ہو، ایک خاص حد تک اظہارِ رائے کا حق حاصل ہوتا ہے۔جمہوریت کا تصور کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ قدیم یونان کے شہروں، خصوصاً ایتھنز، میں ابتدائی شکل میں موجود تھا۔ بعد ازاں، مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف خطوں میں اس تصور کو نئے سانچے اور تشریحات کے ساتھ اپنایا گیا۔ جمہوریت کی جدید شکل کا آغاز یورپ میں ہوا، جہاں لوگوں نے بادشاہت کے مطلق العنان نظام کو چیلنج کیا اور عوامی شراکت پر مبنی حکومت کے اصول و ضوابط وضع کیے۔

محترم سامعین! جمہوریت چند مضبوط ستونوں پر قائم ہے، جنہیں سمجھنا اس نظام کو جاننے کے لیے ضروری ہے۔ پہلا ستون ہے آزادیِ رائے۔ جمہوریت ہر فرد کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ بغیر کسی خوف یا جبر کے اپنے خیالات کا اظہار کرے اور اپنی پسند کی حکومت کا انتخاب کرے، یہی آزادی عوام کو قوت دیتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔دوسرا ستون ہے انتخابی عمل۔ 

محترم حاضرین! جمہوریت میں حکومت کا قیام عوامی ووٹوں سے ہوتا ہے۔ ہر ووٹ ایک طاقت ہے جو حکومت کو بناتا اور بدلتا ہے۔ اس نظام میں عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع ملتا ہے۔تیسرا ستون ہے قانون کی حکمرانی۔ جمہوریت میں قانون سب سے بالاتر ہوتا ہے۔ چاہے کوئی عام شہری ہو یا حکمران، سب قانون کے دائرے میں رہتے ہیں۔ یہی اصول سماج میں انصاف اور امن قائم رکھتا ہے۔

برادران ملت! چوتھا اہم ستون ہے اقلیتوں کے حقوق۔ جمہوریت اکثریت کی حکومت ضرور ہے، لیکن اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس نظام میں ہر طبقے کو مساوی مواقع فراہم کیا جاتا ہے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔جمہوریت میں منتخب نمائندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ عوام انہیں اپنے مفاد اور حقوق کے تحفظ کے لیے منتخب کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کا احتساب بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح جمہوریت میں ہر شخص کو اپنے خیالات اور رائے کے اظہار کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اس سے معاشرے میں توازن اور ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔

سامعین ذی وقار! جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس سے سماج میں توازن اور برابری کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نظام، خواہ اپنی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ ہو، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں عوام کی شراکت داری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ البتہ، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت محض ایک نظریہ یا لفظ نہیں، بلکہ یہ عمل اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔

محترم حضرات! آج کے دور میں جمہوریت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے کرپشن، اقربا پروری اور عوامی حقوق کی پامالی۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم جمہوریت کی اصل روح کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ ہمیں اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے جمہوریت کے تقاضوں کو مضبوط کرنا ہوگا اور انہیں صرف کاغذی سطح پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی نافذ کرنا ہوگا۔

محترم حاضرین! جمہوریت کا حسن تبھی ظاہر ہوتا ہے جب عوام اپنے حقوق اور فرائض کو سمجھتے ہیں، اور اپنے منتخب نمائندوں سے سوال پوچھنے اور جواب طلب کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ ایک مستحکم جمہوریت تبھی ممکن ہے جب ہم باہمی احترام، انصاف اور آزادی کی بنیادوں پر معاشرتی ہم آہنگی قائم کریں۔

وما علینا الاالبلاغ

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !