اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی: شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ |
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ
اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی
16/ شوال المکرم1438 مطابق 11/ جولائی 2018ھ بروز منگل تقریباً دس بجے گردش کرنے والی ایک خبر نے دنیائے علم میں سناٹا پھیلادیا، فن حدیث کے بے تاج بادشاہ، اخلاص و للہیت کے پیکر، دنیا کو اپنی ٹھوکروں میں رکھنے والے، علم کی خاطر اپنا سب کچھ تج دینے والے، قلندر صفت، درویش خدا اورمدرسہ مظاہر علوم کی مسند حدیث کو ۵۰؍ سال تک زینت بخشنے والے شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد یونس صاحب نور اللہ مرقدہ اس دار فانی سے کوچ کرکے محبوب حقیقی سے جاملے، اور اس طرح ۲۰۱۷ میں فوت ہونے والی نابغۂ روزگار شخصیات میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا، دنیا کی آنکھیں نم ہوگئیں، کیا عرب کیا عجم، کیا عالم کیا جاہل، کیا عوام اور کیا خواص سب ہی بے چین و مضطرب ہوگئے، علمی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحبؒ کو ۱۶؍ شوال ۱۴۳۸ھ بروز منگل طبیعت میں سستی کا احساس ہوا؛ چنانچہ سہارنپور کے مشہور اسپتال’’ میڈی گرام‘‘ میں حضرت کو لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ساڑھے نو بجے کے قریب انتقال کی تصدیق کردی اورپھر اسی دن بعد نماز عصر قبرستان شاہ کمال میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں لاکھوں علماء، طلبہ، اولیاء، اتقیاء اور عوام و خواص کا جم غفیر موجود تھا، ایسا لگتا تھا جیسے انسانوں کا سیلاب آگیا ہو، دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ محبوبیت کسے کہتے ہیں اور ’’ سیجعل لہم الرحمن ودا‘‘ کی عملی تفسیر کیا ہوتی ہے، بڑے بڑے بادشاہ، حکمراں، امراء اور وزراء کو یہ محبوبیت و مقبولیت کہاں حاصل ہوسکتی ہے، جو ان بوریہ نشینوں کو حاصل ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں، لوگوں کا بیان ہے کہ صرف حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب کا آخری دیدار کرنے کے لیے ایک کلومیٹر لمبی لائن لگی تھی، لوگ بڑے پر سکون انداز میں اپنی باری کا انتظار کرتے، باری آنے پر حضرت شیخ کا دیدار کرتے اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے، نہ دھکا مکی، نہ شور و شغب اورنہ کوئی ہنگامہ۔
حضرت شیخ محمد یونس صاحبؒ کے مختصر حالات زندگی
ولادت:۔ حضرت شیخ کی پیدائش ۲۵؍ رجب ۱۳۵۵ھ مطابق ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء بروز شنبہ صبح ۷؍ بجے ’’ شیراز ہند‘‘ کہلانے والے ہندوستان کے معروف علمی شہر جونپور کے ایک گاؤں چوکیہ (کھیتاسرائے ) میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم:۔حضرت شیخ محمد یونس صاحبؒ اپنی ایک خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں:’’ کچھ دنوں بعد ایک پرائمری اسکول ہمارے گاؤں میں قائم ہوگیا، اس میں جانے لگے، درجہ دوم تک وہاں پڑھا، پھر درجہ سوم کے لیے مانیکلاں کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا، سوم پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے یہ کہہ کر چھڑا دیا کہ انگریزی کا دور نہیں اور ہندی میں پڑھانا نہیں چاہتا، ایک دلچسپ قصہ پیش آیا کہ میں اپنے طورپرہندی کی پہلی کتاب پڑھ رہا تھا، اس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ طو طا رام رام کرتا ہے‘‘ والد صاحب نے جب مجھ کو پڑھتے سنا، تو فرمایا:’’ کتاب رکھ دو، بہت پڑھ لیا‘‘ اس کے بعد تقریباً دوسال تعلیم چھٹی رہی۔
آگے لکھتے ہیں:’’ ہمارے گاؤں سے تین میل کے فاصلے پر ’’مانی کلاں‘‘ میں جامع مسجد میں تو حفظ پڑھایا جاتا تھا… وہیں مدرسہ ضیاء العلوم تھا ، جس میں ہماری ابتدائی تعلیم ہوئی، تقریباً ۱۳؍ سال کی عمرمیں مدرسہ ضیاء العلوم قصبہ مانیکلاں میں داخلہ ہوا، ابتدائی فارسی سے لے کر سکندر نامہ تک اورپھر ابتدائی عربی سے لے کر مختصر المعانی ، مقامات، شرح وقایہ اور نورالانوار تک وہیں پڑھیں۔
اکثر کتابیں استاذی مولانا ضیاء الحق صاحب سے اورشرح جامی بحث اسم حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب مد ظلہ العالی (اب رحمۃ اللہ علیہ:ناقل) سے، مگر کثرت امراض کی وجہ سے بیچ میں طویل فترات واقع ہوتی رہیں، اس لیے تکمیل کا فی مؤخر ہوگئی، پھر یہ بھی پیش آیا کہ ہماری جماعت ٹوٹ گئی، ہم نے اولاً شرح جامی، شرح وقایہ، نور الانوار مولانا ضیاء الحق صاحب سے پڑھی تھیں، مگر جماعت نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب نے اگلے سال پھر انہیں کتابوں میں داخل کردیا اور خود پڑھایا۔
مظاہر علوم میں داخلہ و فراغت:۔ اس کے بعد شوال۱۳۷۷ھ میں مدرسہ مظاہر علوم میں بھیج دیا، یہاں آکر پہلے سال جلالین، ہدایہ اولین، میبذی اور اگلے سال بیضاوی، مسلم، ہدایہ ثالث، مشکاۃ شریف اور تیسرے سال یعنی شوال ۱۳۷۹ھ تا شعبان ۱۳۸۰ھ دورئہ حدیث شریف کی تکمیل کی۔
تاریخ مظاہر جلد ۲؍ میں ہے’’ فراغت شعبان ۱۳۸۰ھ میں ہوئی، آپ نے بخاری شریف حضرت شیخ مد ظلہ، ابوداؤ شریف حضرت مولانا امیر احمد صاحب سے پڑھیں، ان اکیاون فارغین میں مولانا محمد یونس صاحب نے اول نمبرا ت سے کامیابی حاصل کرکے مندرجہ ذیل کتب انعام میں حاصل کیں:’’درر فرائد، بیا ن القرآن جلد اول، معارف الحدیث ، تذکرۃ الرشید جلد اول، ماہتاب عرب، حسن النظر، فضائل مسواک، الذکر المیمون‘‘
مظاہر علوم کی تدریس
شوال ۱۳۸۱ھ میں معین المدرس کے عہدہ پر تقرر ہوا، شرح وقایہ اورقطبی زیر تعلیم و تدریس تھیں، اگلے سال بھی یہی کتابیں رہیں، اس سے اگلے سال مقامات و قطبی سپرد ہوئیں اور اس سے اگلے (یعنی چو تھے) سال شوال ۱۳۸۴ھ سے ہدایہ اولین، قطبی و اصول الشاشی زیر تدریس تھیں۔
درس حدیث:۔ اسی سال ذی الحجہ ۱۳۸۴ھ میں حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کے سبب مشکاۃ شریف حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب کے یہاں سے منتقل ہوکر آئی ، جو باب الکبائر سے پڑھائی، پھرآئندہ سال شوال۱۳۸۵ھ میں مختصر المعانی، قطبی، شرح وقایہ، مشکاۃ شریف مکمل پڑھائی، اورشوال۱۳۸۶ھ میں ابوداؤ شریف ونسائی شریف اور نور الانوار زیر درس رہیں، اور شوال۱۳۸۷ھ سے مسلم شریف، نسائی ، ابن ماجہ اورموطین زیر درس رہیں۔
شیخ الحدیث کے منصب پر
اس کے بعد شوال ۱۳۸۸ھ میں بخاری شریف و مسلم شریف اورہدایہ ثالث پڑھائی اوراس کے بعد سے بحمد اللہ سبحانہ وتعالیٰ بخاری شریف اورکوئی دوسری کتاب ہوتی رہتی ہے ۔ ( الیواقیت الغالیۃ:۱؍۱۷؍ تا ۲۰؍ بحذف کثیر)
بیعت و خلافت:۔ حضرت مولانا محمد یونس صاحبؒ کو پہلے اپنے استاد حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری خلیفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے اور پھر اپنے شیخِ بیعت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ سے اجازت و خلافت حاصل ہوئی اور اس طرح علمی فیض کے ساتھ لوگوں کو آپ سے روحانی فیض بھی پہنچنے لگا۔
امراض کے باوجود علمی شغل
حضرت بچپن ہی سے بیماری کاشکار رہے؛ چنانچہ مدرسہ ضیاء العلوم مانیکلاں، جون پور میں تعلیم کے حوالہ سے لکھ چکے ہیں کہ’’ کثرتِ امراض کی وجہ سے بیچ میں طویل فترات واقع ہوتی رہیں، اس لیے تکمیل کافی مؤخر ہوگئی‘‘ جب حضرت مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے ، تو بیماری نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا؛ چنانچہ مظاہر آنے کے چند دن بعد نزلہ و بخار میںمبتلا ہوگئے اورپھرمنہ سے خون آگیا، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ اورشیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ کے کہنے کے باوجود گھر نہیںگئے، حضرت شیخ الحدیث نے بلا کر ارشاد فرمایا کہ’’جب تو بیمار ہے اور لوگوں کا مشورہ بھی ہے تو مکان چلاجا‘‘ حضرت مولانا نے عرض کیا کہ’’ حضرت اگر مرنا ہے تو یہیں مرجاؤں گا‘‘حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا کہ’’ بیماری میں کیا پڑھا جائے گا؟‘‘ حضرت مولانا نے عرض کیا’’ حضرت جو کان میں پڑے گا وہ دماغ میںاتر ہی جائے گا‘‘ اس پر حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ نے ارشاد فرمایا’ ’ پھر پڑا رہ‘‘
اورپھر دنیا نے دیکھا کہ اس مست قلندر نے اس ایک جملے کی کتنی لاج رکھی، پوری زندگی اسی چوکھٹ پر گزاردی، اورمرنے کے بعد بھی اسی محبوب کی گلی میں ابدی نیند سوگیا۔
آج ملت اسلامیہ داخلی و خارجی فتنوں کا شکا رہے، اس پر ان اکابرین ملت کا اٹھتے چلے جانا عظیم مصیبت سے کم نہیں، علم و عرفان کی مجلسیں سونی ہوتی چلی جارہی ہیں اور ان کا کوئی بدل نظر نہیں آتا، اللہ تعالیٰ حضرت والا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اورملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین۔