![]() |
جنگ آزادی اور مسلمان |
از قلم: حضرت مولانا عبد اللہ صاحب فضل معروفی
استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جون پور
الحمدللہ وکفی، و سلام علی عبادہ الذین اصطفی، اما بعد: فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم: وَالَّذِينَ جَاہدُوا فِينَا لَنَہدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ. (سورۃ العنکبوت: 69)
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
معزز اساتذہ کرام، عزیز ساتھیو اور حاضرین محفل! یہ میرے لیے بڑی سعادت و خوش نصیبی کی بات ہے کہ آج اس اہم موقع پر "جنگ آزادی اور مسلمان" جیسے عظیم اور اہم موضوع پر لب کشائی کی جسارت کر رہا ہوں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی تاریخ ہر مسلمان کے خون میں جذبہ حریت اور قربانی کا جوش بھر دیتی ہے۔برادران ملت! ہندوستان کی تابناک تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی اس سرزمین کو قربانی کی ضرورت پیش آئی، مسلمانوں نے سب سے پہلے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان کار زار میں قدم رکھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ نہ صرف ہندوستان کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں بلکہ اس کے وقار، ثقافت، اور سالمیت کے محافظ بھی بنے۔ آپ حضرات جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک طویل عرصے تک انگریزی سامراج کے چنگل میں پھنسا رہا۔ مغلیہ سلطنت کی کمزوری، باہمی انتشار اور بدامنی نے دشمن کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس ملک پر قبضہ کر لے۔ایسٹ انڈیا کمپنی، جو بظاہر ایک تجارتی ادارہ تھی، نے نہایت چالاکی اور دھوکہ دہی سے ہندوستان کی خودمختار حکومتوں کو زیر کیا، عوام کو غلام بنایا، اور اس ملک پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ ہندوستانیوں کو ان کی اپنی زمین پر بے بسی اور غلامی کے کرب میں مبتلا کر دیا گیا۔ یہ غلامی نہ صرف سیاسی تھی بلکہ اقتصادی، سماجی، اور تہذیبی غلامی کی صورت میں بھی ظاہر ہوئی۔لیکن میں آپ کو تاریخ کے پیچیدہ اور طویل تفصیلات میں لے جانے کے بجائے، اس اہم سوال پر توجہ دلاؤں گا کہ مسلمانوں نے کس طرح اس غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور جنگ آزادی میں ان کا کردار کیا رہا۔ آئیے! ہم ان قربانیوں اور جدوجہد کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے اسلاف نے آزادی کے حصول کے لیے پیش کیں۔
سامعین کرام! ہندوستان کی تاریخ میں 1857ء کی جنگ آزادی ایک اہم سنگ میل ہے، جو غیر ملکی تسلط کے خلاف عوامی بغاوت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ یہ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ جذبہ حریت کی علامت تھی۔ مسلمانوں نے اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔برادران ملت!جب برطانوی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ جمایا، تو سب سے پہلے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حقوق کو نشانہ بنایا گیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی خودمختاری ختم ہونے لگی، اور ان کی شناخت مٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کی تحریک کا علم بلند کیا۔
میرے بھائیو!علماء کرام نے مسلمانوں کو آزادی کی اہمیت سے آگاہ کیا اور جہاد کی ترغیب دی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی فکری تحریک اور ان کے خلفاء نے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف متحد ہونے کا درس دیا۔1857ء کی جنگ میں مولانا فضل حق خیرآبادیؒ اور دیگر علماء نے اپنی قیادت کے ذریعے عوام کو مزاحمت پر ابھارا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا مملوک علی دیوبندی، حافظ ضامن کاندھلوی، مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا رشید احمد گنگوہی اور دوسرے جید علماء اس میں شریک تھے، تحریک ریشمی رومال کے اصل ہیرو شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی اور ان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے والے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر بہت سی ممتاز اور مشہور دینی شخصیات ہیں، جن کے نام مجاہدین آزادی کی فہرست میں درج ہیں۔ انگریزوں نے ان حضرات کو پھانسیاں دیں، قید میں ڈالا، اور ملک بدر کیا، لیکن ان کے عزم کو ختم نہ کر سکے۔وطن کی آبرو پہ وہ ابھی بھی جان دے دیں گےجنھیں کچھ لوگ اپنے دیس میں بدنام کرتے ہیں۔
میرے غیور نوجوان ساتھیو!جنگ آزادی میں شامل مسلمان سپاہیوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کی۔ دہلی، جھانسی، اور لکھنؤ کے محاذوں پر مسلمانوں نے بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ نواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، اور دیگر مسلم حکمرانوں کی جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، جو آزادی کے ابتدائی ہیرو تھے۔ اسی ٹیپو سلطان کی شہادت پر انگریز افواج کے جنرل نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ "اب ہندوستان ہمارا ہے"۔جنگ کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ انہیں بغاوت کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا گیا، ان کی جائیدادیں ضبط کی گئیں اور ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔
سامعین باتمکین! مسلمانوں کی قربانیوں نے آزادی کے شعور کو بیدار کیا اور آنے والی نسلوں کو حوصلہ دیا۔ جنگ آزادی 1857ء اگرچہ بظاہر ناکام ہوئی، لیکن اس نے برصغیر میں حریت کے بیج بو دیے۔
سامعین باوقار! اس مختصر سے وقت میں مسلمانوں کے کارناموں کو کما حقہ بیان نہیں کیا جاسکتا، پھر کبھی موقع ملا تو ان شاءاللہ مزید وضاحت اور تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ ساتھ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور ان کے مشن کو جاری رکھیں۔ ہمیں اپنے دین، اپنی تہذیب، اور اپنے وطن کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں میں اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں:
خُودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
وما علینا إلا البلاغ المبین